پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کا جائزہ لیتے ہوئے کِیا لکی موٹرز کے CEO نے کہا ہے کہ اگر حکومت کاروں پر ٹیکس میں کمی کرے تو اس سے مقامی شعبے میں گاڑیوں کی طلب اور پیداوار میں اضافے کا بہت زیادہ امکان ہے۔
کِیا لکی موٹرز کے CEO آصف رضوی سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں بننے والی گاڑیوں پر عائد ٹیکس کی شرح کم کی جائے تو مقامی آٹو موبائل انڈسٹری میں آگے بڑھنے کی بہت صلاحیت ہے۔ اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی کم ہوتی ہوئی قدر کی وجہ سے مارکیٹ میں غیر یقینی کیفیت ہے اور اقتصادی سرگرمیاں منجمد ہیں۔ گاڑیوں کی طلب میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آٹو مینوفیکچرز کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں سیلز میں اتنی کمی ہوئی ہے کہ آٹو میکرز کو اپنی پیداوار تک روکنا پڑی ہے کیونکہ گاڑیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن خریدنے والے اتنے نہیں ہیں۔ ہونڈا اٹلس نے جولائی کے مہینے میں 10 سے زیادہ دن تک اپنا پلانٹ بند رکھا اور اسی طرح ٹویوٹا انڈس نے اپنے کام کے دن گھٹا کر ہفتے میں پانچ کردیے ہیں۔ یہ موجودہ بڑے اداروں اور مارکیٹ میں حال ہی میں داخل ہونے والے نئے اداروں دونوں کے لیے بدترین صورت حال ہے۔ اس صورت حال میں آصف رضوی تجویز کرتے ہیں کہ حکومت سیلز کو برقرار رکھنے کے لیے ٹیکس کم کرے اور بہت زیادہ صلاحیت رکھنے والے اس شعبے میں سب کی دلچسپی کو برقرار رکھے۔
حکومت نے حال ہی میں تمام کیٹیگریز کی گاڑیوں پر 2.5 سے 7.5 فیصد کی شرح کے ساتھ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) لگائی ہے۔ اس ٹیکس کو پوری انڈسٹری کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اسے امید ہے کہ حکومت صنعت کی کھوئی ہوئی رفتار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اس ٹیکس کو واپس لے گی۔ گاڑیوں کی قیمتیں اب آسمان کو پہنچ چکی ہیں اور صارفین کے لیے نئی گاڑی خریدنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ کِیا لکی موٹرز وہ پہلا ادارہ ہے کہ جو حکومت کی جانب سے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-21ء جاری ہونے کے بعد گرین فیلڈ اسٹیٹس کے ساتھ پاکستان کے آٹو سیکٹر میں داخل ہوا تھا۔ کِیا لکی موٹرز نے 175 ملین ڈالرز کی بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ریکارڈ 18 ماہ میں اسمبلی پلانٹ لگایا ۔ یہ سالانہ 50،000 یونٹس تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیا ادارہ اپنے completely knocked-down (CKD) یونٹس، اپنی تمام گاڑیوں پر عائد کسٹمز ڈیوٹیوں اور FED پر بہت زیادہ ٹیکس بھی ادا کر رہا ہے۔ نتیجتاً قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں، جس سے مارکیٹ میں طلب میں کمی آ گئی ہے۔ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں صارفین گاڑی خریدنے پر 30 سے 38 فیصد ٹیکس کی صورت میں اضافی ادا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 20 لاکھ روپے کی گاڑی خریدنے پر انہیں 6 سے 7.6 لاکھ روپے کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ آٹو انڈسٹری ٹیکس میں بڑا حصہ ڈالتی ہے اور حکومت کی جانب سے اسے مستقل پالیسیاں ترتیب دے کر مناسب انداز میں سنبھالنا چاہیے۔ یہ شعبہ کئی صنعتوں سے منسلک بھی ہے جن میں انجینئرنگ، آٹو پارٹس، پلاسٹک، ربڑ وغیرہ شامل ہیں اور آٹو انڈسٹری کو پہنچنے والا کوئی بھی دھچکا ان سب پر یکساں اثر انداز ہوگا۔ آٹو سیکٹر کو مضبوط کرنا بلاشبہ ان صنعتوں کو بھی مضبوط کرے گا اور مارکیٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ آٹو سیکٹر میں روزگار کا ایک موقع پیدا ہونے سے آٹو پارٹس انڈسٹری میں 100 ملازمتیں تخلیق ہوتی ہیں۔
یہ آٹو انڈسٹری کے لیے ایک اہم وقت ہے کیونکہ متعدد نئے ادارے اپنی بھاری غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ آ چکے ہیں۔ حکومت نے کئی یورپی اور کوریائی آٹو اداروں کو بھی گرین فیلڈ اسٹیٹس دیے ہیں۔ پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت نے پچھلے پانچ سالوں میں 15 فیصد کا اضافہ دکھایا ہے، جو ملک میں گاڑیوں کی طلب کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت ٹیکس کی بہت زیادہ شرح صارفین کو گاڑیاں خریدنے سے روک رہی ہے۔ فی الوقت ملک میں کُل پیداواری گنجائش 3,50,000 گاڑیاں سالانہ پر کھڑی ہے، جو 6,00,000 یونٹس تک جا سکتی ہے جبکہ سال 2025ء کے اختتام تک گاڑیوں کی طلب و رسد 5,00,000 یونٹس تک بڑھنے کی امید ہے۔ اگر اس شعبے کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مستقل پالیسیاں ترتیب دی جائیں تو یہ طلب 2030ء تک تقریباً ایک ملین یعنی 10 لاکھ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
کِیا لکی موٹرز نے حال ہی میں 2000cc کی طاقت رکھنے والا اسپورٹیج ماڈل ملک میں متعارف کروایا کہ جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ کمپنی کے CEO سمجھتے ہیں کہ یہ گاڑی مقامی انڈسٹری پر اپنے اثرات مرتب کرے گی کیونکہ یہ 1800cc سے 2700cc کے درمیان کی گاڑیوں میں موجود خلاء کو پُر کرتی ہے۔ اس شعبے میں ایسا ماڈل پیش کرنا واقعی صارفین کو انتخاب کے لیے مزید مواقع دے گا اور مقابلے کی بہتر فضاء کے ساتھ گاڑیوں کے اس شعبے کو بخوبی اوپر لے جائے گا۔
اس حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے؟ پاک ویلز کو نیچے تبصروں میں ضرور بتائیں اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔