جہاں تک بات ہے سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی تو ہمارا ملک پاکستان کافی پیچھے ہے۔ شاہراہ قراقرم، مکران ہائی وے، ایم1 سے ایم14 تک موٹرویز (جن میں سے ساری مکمل بھی نہیں ہیں) اور چند دیگر کے سوا ہمارا سڑکوں کا جال اتنا اچھا اور مؤثر نہیں ہے۔ البتہ ملک کے مختلف حصوں کو ملانے والی موٹرویز بہترین سڑکیں ہیں اور محفوظ ڈرائیونگ کا ماحول فراہم کرتی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں موٹروے اتھارٹی نے عوام کی سہولت کے لیے کئی منصوبوں کا آغاز کیا جیسا کہ ای-ٹیگ، اسپیڈ کیمرے، مناسب موٹروے پیٹرولنگ، جداگانہ موٹروے لائسنس، ایک ریڈیو چینل، 24 گھنٹے 7 دن کی ہیلپ لائن اور دیگر۔ اب تازہ ترین منصوبہ ہے ایم-ٹیگ متعارف کروانا۔
یہ ایم-ٹیگ کیا ہے؟
موٹروے کو بارہا استعمال کرنے والے ای-ٹیگ سے تو واقف ہوں گے، جو ان کی سہولت کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ جداگانہ ای-ٹیگ لینز متعارف کروائی گئیں اور ایک RFID اسٹیکر جاری کیا گیا جو ٹول بوتھ پر دیکھا جاتا ہے اور اس گاڑی کے لیے لین کھول دی جاتی ہے۔ پہلے ای-ٹیگ کو نادرا کنٹرول کرتا تھا۔
لیکن اب ای-ٹیگ کا خاتمہ کردیاگیا ہے اور اس کی جگہ نئے ایم-ٹیگ کو مل گئی ہے جو اب 31 مارچ 2018ء سے موٹروے پر کسی بھی کمرشل گاڑی کے داخلے کے لیے لازمی ہوگا۔ اس حوالے سے ہم نے ایف ڈبلیو او اور ایم-ٹیگ سے رابطہ کیا۔ بتایا گیا کہ ابھی یہ صرف کمرشل گاڑیوں کے لیے ضروری ہے لیکن آئندہ مراحل میں پرائیوٹ گاڑیوں کو بھی ایم-ٹیگز لینے کا کہا جائے گا۔
ای-ٹیگ کی طرح ایم-ٹیگ بھی ایک پری-پیڈ RFID چپ ہے جسے ٹول بوتھس پر انسٹال کیے گئے اسکینرز ریڈ (read) کرتے ہیں۔ اسکینر آپ کے ایم ٹیگ پر موجود بیلنس اور داخلے کے مقام کو ریڈ کرتا ہے اور جب آپ باہر نکلتے ہیں تو رقم کاٹ لیتا ہے۔