نسان اور رینو انضمام کی طرف گامزن
آٹو انڈسٹری میں تقریباً 20 سال تک تعلق رکھنے کے بعد نسان اور رینو (رینالٹ) اب انضمام پر غور کر رہے ہیں۔ بلوم برگ کی بدولت ہمیں گاڑیاں بنانے والے ان جاپانی اور فرانسیسی اداروں کے انضمام اور واحد بڑا ادارہ تشکیل دینے پر کیے گئے خفیہ مذاکرات کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ انضمام ان دونوں کو ٹویوٹا اور فوکس ویگن جیسے بڑے اداروں سے مقابلہ کرنے میں مدددے گا۔
اگر مذاکرات کی کوئی حتمی شکل و صورت بنتی ہے تو مکمل انضمام دونوں اداروں کو اپنے اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے الیکٹرک گاڑیاں، خودکار و خود مختار گاڑیاں اور کارشیئرنگ سروسز بنانے پر توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دے گا۔ انضمام کا مطلب ہوگا کہ نسان رینالٹ کے حصص یافتگان (شیئر ہولڈرز) کو نئے ادارے میں اسٹاک دے گا اور نسان کے موجودہ حصص یافتگان نئی انضمام شدہ کمپنی میں حصص پائیں گے۔ بلوم برگ کی حالیہ رپورٹ بھی اس خبر کی تصدیق کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں اداروں کے موجودہ چیئرمین کے طور پر کام کرنے والے کارلوس گھوسن نئے ادارے کے سربراہ ہوں گے۔
ویسے یہ اتنا سادہ قدم نہیں ہوگا کیونکہ اس میں دو مختلف ممالک کے ادارے شامل ہیں۔ فرانسیسی حکومت پہلے ہی رینو میں 15 فیصد حصص رکھتی ہے۔ اس وجہ سے فرانسیسی و جاپانی حکومتیں ان برانڈز میں اپنے متعلقہ حصص چھوڑنے کی خواہش مند نہیں ہو سکتیں۔

اس وقت رینو نسان میں 43 فیصد حصص رکھتا ہے اور نسان اپنے فرانسیسی شراکت دار کے 15 فیصد حصص کا مالک ہے۔ رائٹرز کے مطابق گھوسن پرامید ہیں کہ یہ تعاون رینو میں فرانسیسی حکومت کے زیادہ تر حصص خرید کر حقیقت کا روپ دھارے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ انضمام اس اتحاد کا خاتمہ ہوگا جو 1999ء میں شروع ہوا اور نتیجتاً نسان نے 2016ء میں مٹسوبشی کا اختیارات حاصل کیے۔ اس کے لیے نسان نے مٹسوبشی کے 34 فیصد حصص کے لیے 2.3 ارب ڈالرز کی بھاری رقم ادا کی تھی۔ اس کی مدد سے ادارے نے مختلف پلیٹ فارمز اور ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ سمیت کئی دیگر وسائل پیش کیے تھے۔ آپ نسان اور مٹسوبشی کی اس خبر کے بارے میں ذیل میں مزید جان سکتے ہیں۔
تین کمپنیوں کے اس اتحاد نے مل جل کر 200 ملین ڈالرز کا ایک فنڈ حاصل کرنے کے لیے کام کیا تاکہ مختلف اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کرے۔ اس پر مزید یہ کہ تینوں موجودہ آٹو موبائل صنعت میں مستحکم مقام حاصل کرنے کے لیے مل جل کر اپنے وسائل پر کام کریں گے، حالانکہ بڑھتی ہوئی مسابقت نے کئی ناموں کو منظرعام سے غائب کردیا ہے۔