3 اکتوبر 2018ء کو قومی اسمبلی نے مالیاتی بل میں ترمیم کی منظوری دی جس کے تحت نان-فائلرز 200cc سے کم گنجائش رکھنے والی گاڑیاں خریدنے کے قابل بن جائیں گے۔
قبل ازیں، چند ہفتے پہلے، بجٹ 2018-19ء میں ترامیم پیش کرتے ہوئے موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد نان-فائلرز گاڑیاں خرید پائیں گے، جسے کئی صنعتی ماہرین اور سیاسی رہنماؤں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
حکومت نے نان-فائلرز کو صرف موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی خریداری کی اجازت دی ہے، نان-فائلرز کے کاریں خریدنے پر عائد پابندی بدستور برقرار ہے۔
پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) نے یکم اکتوبر 2018ء کو وزیر خزانہ اسد عمر کو ایک خط بھیجا تھا اور استدلال کیا تھا کہ نان-فائلرز پر پابندی کی وجہ سے فروخت میں آنے والی کمی کی بدولت حکومت کو ریونیو میں 50 ارب روپے کا نقصان ہوگا، ڈان نے بتایا۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق واضح رہے کہ نان-فائلر معاملے کی وجہ سے ملک میں گاڑیوں کی بکنگ 30 فیصد تک گرچکی ہے۔صنعتی ماہرین نے اشارہ دیا کہ گاڑیوں کی کم بکنگ کار انڈسٹری پر اثر ڈالے گی اور رواں سال کے اختتام تک فروخت 2,40,000 سے گھٹ کر 1,68,000 یونٹس ہو جائے گی۔
PAMA نے حکومت سے نان-فائلرز کے گاڑیاں خریدنے پر پابندی نہ لگانے کا مطالبہ کیا، اور اتھارٹی نے نان-فائلرز کا ڈیٹا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو مستقل بنیادوں پر فراہم کرنے میں مدد تک کی پیشکش کی۔
البتہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے PAMA کی ایسی تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی اور نان-فائلرز کو فائلر بنانے میں سنجیدہ ہے۔
ہماری طرف سے اتنا ہی، اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔