گاڑیوں کی فروخت: پاکستان اور بھارت میں زمین آسمان کا فرق ہے!

0 303

ہم اکثر و بیشتر پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے کی ترقی سے متعلق بات کرتے ہی رہتے ہیں کہ کس طرح پاکستان میں گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے اور کس طرح نئے ادارے اس شعبے میں شامل ہورہے ہیں یا ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسی حقیقت بتا رہے ہیں جسے سن کر بحیثیت پاکستانی شاید آپ کو اچھا نہ لگے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت عالمی دنیا کے کئی ممالک بشمول بھارت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستن میں گاڑیوں کا شعبہ پڑوسی ملک سے کئی سالوں پیچھے ہے۔ حال ہی میں سامنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی مجموعی تعداد کے مقابلے میں بھارت سے برآمد کی جانے والی گاڑیوں کی تعداد 400 فیصد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت ہر گاڑی کی ایک تھائی قیمت بطور ٹیکس وصول کرتی ہے

عددی اعتبار سے نظر ڈالیں تو سال 2014-15 کے دوران بھارت میں مجموعی طور پر 23 لاکھ گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ اس دوران پاکستان میں تیار اور فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد صرف اور صرف 1.5 لاکھ رہی۔ گویا دونوں پڑوسی ممالک کی مارکیٹوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ بھارت میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد تو ایک طرف پاکستان تو پڑوسی ملک سے برآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعداد کا بھی عشر عشیر نہیں ہے۔ سال 2014-15 کے دوران بھارت سے تقریباً 5.74 لاکھ گاڑیاں دیگر ممالک بھیجی گئیں جو پاکستان میں گاڑیوں کی مجموعی فروخت یعنی ڈیڑھ کروڑ سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔

اس رپورٹ میں اتنے بڑے اور واضح فرق کی ایک وجہ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کی نااہلی بتائی گئی ہے ۔ بھارت میں بہت سے ادارے بین الاقوامی معیار کی گاڑیوں کی تیاری شروع کرچکے ہیں جن میں ٹاٹا، مہندرَ، اشوک لیلینڈ اور ہیرو گروپ جیسے متعدد نام شامل ہیں۔ جبکہ بھارت کے برعکس پاکستان میں جاپانی اداروں سے حاصل کردہ عرصہ دراز پرانی ٹیکنالوجی پر گاڑیوں کی تیاری ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پڑوسی ممالک کے برعکس پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں زیادہ کیوں؟

عالمی بینک کی جانب سے سال 2010 میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر 1000 افراد میں سے صرف 18 افراد کے پاس ذاتی گاڑی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2011 کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں بھی ہر 1000 افراد میں سے 18 افراد اپنی گاڑی رکھتے ہیں۔ تاہم بھارت خطے اور زمین کے اعتبار سے کہیں زیادہ بڑا ہے جس کی وجہ سے وہاں مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔ جبکہ پاکستان کو مختلف وجوہات کی بنا پر ترقی کا تسلسل برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں نئی آٹو پالیسی منظور ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔

بہرحال، ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو گاڑیوں کے شعبے بالخصوص اپنی گاڑی تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں نئے ذہنوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی تاکہ مستقبل میں نہ صرف گاڑیوں کے شعبے بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.