پاکستانی انجینیئر نے بھوسے کو ایندھن میں تبدیل کردیا
ایک پاکستانی سائنسدان سید حسین عابد نے ایسا سسٹم تیار کیا ہے جو گندم، جو اور گنے کے بھوسے کو ایتھنول میں تبدیل کرتا ہے۔ امپیریئل کالج آف لندن سے انوویشن ڈیزائن انجینیئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے گریجویٹ کو امید ہے کہ ان کا منصوبہ ملک میں ایندھن کے استعمال کو بدل کر رکھ دے گا۔
پاکستان میں ہر سال کھیتوں میں ضائع ہونے والے 50 ملین ٹن بھوسے سے توانائی حاصل کرنے کی صلاحیت کا حامل “البر” نامی یہ ماڈل ایتھنول کو قابلِ استعمال ایندھن میں تبدیل کرتا ہے۔ بعد ازاں اسے گاڑیوں کے ایندھن میں شامل کرکے، یا ملک بھر کے دیہی علاقوں میں کے باورچی خانوں میں چولہے جلانے کے لیے صاف طریقے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جو اِس وقت گوبر سے میتھین حاصل کرکے چلائے جاتے ہیں۔
دنیا بھر کی کئی ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ایتھنول گاڑیوں کے ایندھن میں استعمال ہوتا ہے جو اسے صاف طریقے سے جلنے اور ماحول میں نقصان دہ گیسوں کا اخراج کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ E10 جیسے بلینڈز، جو امریکا میں عام ہیں اور 10 فیصد تک ایتھنول رکھتے ہیں، اور زیادہ ماحول دوست E85 کہ جس کا نام اس میں موجود ایتھنول کی فیصد مقدار کو ظاہر کرتا ہے۔
اس وقت پاکستان ہر سال دیگر ممالک سے ایندھن درآمد کرنے میں 20 ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کرتا ہے، جو ایک ایسی معیشت کے لیے بہت بڑی قیمت ہے کہ جو ایندھن کے لیے ایتھنول کے استعمال سے باآسانی بچائی جا سکتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ پانچ سال میں ملک میں ایتھنول کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن حکومت اس کے استعمال کو فروغ دینے میں تیزی نہیں دکھا رہی اور نتیجتاً 50 فیصد سے زیادہ مقامی پیداوار یورپ اور مشرق بعید کو برآمد کردی جاتی ہے۔
اس وقت حکومت ایتھنول یا ایتھنول کے حامل ایندھن کی پیداوار یا مارکیٹنگ پر کوئی مالی مدد یا ٹیکس بچت پیش نہیں کرتی۔ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے ایتھنول کے استعمال پر تحقیق و پیشرفت کو بھی اس وقت حکام کی جانب سے مدد نہیں دی جاتی۔ اس ضمن میں واحد قابل ذکر پیشرفت یہ تھی کہ پی ایس او نے 2006ء میں E10 ایتھنول فیول بلینڈ متعارف کروایا تھا اور بعد میں اس کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔