پاکستان میں سیڈان گاڑیوں کی دوڑ اور ٹویوٹا کی فتح!
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان میں کئی طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں نظر آتی تھیں۔ ان میں امریکا سے یورپ بلکہ تمام دنیا کے کار ساز اداروں کی بنائی گئی ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی شامل تھی۔ 50، 60 اور پھر 70 کی دہائی تک گاڑیوں کی یہ رنگا رنگی جاری رہی۔ اس دور میں اگر آپ گاڑی لینے کی غرض سے نکلیں تو بے شمار اور کئی طرح کی گاڑیاں آپ کے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہوتی تھیں۔
مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔ وقت کے ساتھ امریکی اور یورپی اداروں نے پاکستان سے رخصت اختیار کرلی جس سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے جاپانی ادارے آگے آئے اور پاکستانی مارکیٹ پر چھا گئے۔ 80 کی دہائی کے وسط اور 90کی دہائی کے آغاز میں جاپانی گاڑیوں نے پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی۔ حتی کہ 1995 تک جاپان کے تین بڑے کار ساز ادارے ٹویوٹا انڈس موٹرز، ہونڈا ایٹلس موٹرز اور پاک سوزوکی نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے 2 کار ساز اداروں ہیونڈائی اور کِیا موٹرز نے پاکستان میں قدم جمانے کی کوشش کی تاہم انہیں کامیابی نہ مل سکی۔
مالی اعتبار سے ٹویوٹا نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑیوں میں طویل عرصے سے ٹویوٹا کرولا کا راج ہے۔ پاکستان میں ٹویوٹا کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انڈس موٹرز گاڑی بُک کیے جانے کے چار پانچ ماہ بعد صارفین کو فراہم کر رہا ہے۔ اس پر بھی ہمارے لوگ خوش ہیں۔
ہونڈا سِوک گو کہ پاکستان میں اتنی مقبول نہیں جتنی ٹویوٹا کرولا ہے لیکن پھر بھی اسے قابل ذکر کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں نئی سِوک کی متوقع آمد کے باعث ہونڈا کی فروخت میں کمی دیکھی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی امید بھی کی جارہی ہے کہ رواں سال کے وسط میں نئی ہونڈا سِوک 2016 کی آمد کافی دھوم مچائے گی۔
مذکورہ دو گاڑیوں کے علاوہ پاکستانی مارکیٹ میں کوئی ایسی گاڑی نہیں جسے اکثر صارفین خریدنا چاہتے ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر مجھے پاکستان میں انتہائی محدود ماڈلز کی فراہمی پر لکھنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان ہی میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کے یے رواں مالی سال کا آغاز انتہائی خوش کن رہا ہے۔ گذشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں اس بار گاڑیوں کی فروخت 66 فیصد بڑھ چکی ہے۔ جولائی تا دسمبر 2015 کے درمیان 89,824 گاڑیاں فروخت کی جاچکی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال کے لیے بھی بے حد مفید اور حوصلہ افزا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2016 کی پہلی ششماہی: گاڑیوں کی فروخت میں 66 فیصد اضافہ
لیکن، میرا مدعا یہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے شعبہ صرف گھوڑوں کی دوڑ بن کر رہ گیا ہے۔ اور گھوڑوں کی اس دوڑ میں ہر بار ایک ہی فاتح رہتا ہے جسے ہم ٹویوٹا کے نام سے جانتے ہیں۔ بالخصوص سیڈان طرز کی گاڑیوں میں صورتحال اور بھی بری ہے۔ ہیچ بیکس گاڑیوں میں جس طرح پاک سوزوکی نے بادشاہت قائم کر رکھی ہے، اسی طرح سیڈان میں ٹویوٹا کو سبقت حاصل ہے۔ شکر ہے پاکستان میں گاڑیاں درآمد کرنا اب پہلے جیسا مشکل نہیں رہا اس لیے لوگ جاپان سے نت نئے ماڈلز کی گاڑیاں یہاں منگوا رہے ہیں۔ باوجودیکہ گاڑیوں کی درآمد پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات نہیں ڈالتی لیکن پھر عوام کے پاس بہتر اور جدید گاڑیوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں۔
بہرحال، اگر صرف سیڈان گاڑیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں 90 کی دہائی سے ٹویوٹا ہی ٹویوٹا نظر آتی ہے۔ اس وقت ہونڈا نے پاکستان میں قدم رکھتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کیا جس کا براہ راست فائدہ ہم وطن ٹویوٹا نے اٹھا لیا۔ ہونڈا ایٹلس نے 1994-95 میں سِوک گاڑیاں تیار کرنا شروع کیں جبکہ ٹویوٹا اس کام کی شروعات 90 کی دہائی کے آغاز سے ہی کرچکا تھا۔ وہ وقت کسی بھی کار ساز ادارے کے لیے بہترین تھا کیوں کہ امریکی اور یورپی اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث پاکستانی مارکیٹ میں ایک بڑا خلا بن چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان درآمد کی جانے والی 5 مشہور ترین جاپانی گاڑیاں
ٹویوٹا نے کام کے آغاز میں ضرور پھرتی دکھائی لیکن پاکستانی صارفین کو گاڑیوں کا انتہائی محدود انتخاب پیش کیا۔ ‘انڈس –شیپ کرولا’ کے نام سے مشہور ہونے والا انڈس موٹرز کا شاہکار ایک دہائی سے بھی زائد عرصے تک جاری رکھا گیا۔ 1990 سے تیار ہونے والی اس گاڑی کو 2000-01 تک پیش کیا جاتا رہا۔ اس صورتحال نے گاڑیوں کی پاکستانی مارکیٹ کو ایک سطحی مقام پر لا کھڑا کیا۔ہونڈا نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سِوک کی یک بعد دیگرے تین جنریشن (1995، 1996-2000، 2001 سے جاری) پیش کردیں۔

لیکن پھر سیڈان گاڑیوں کی دوڑ میں بس یہی دو گھوڑے رہ گئے جو باری باری اپنی اجارہ داری کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تیسرا کھلاڑی موجود نہیں۔ ایک وقت میں سوزوکی نے مارگلہ پیش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ٹویوٹا کرولا یا ہونڈا سِوک خرید سکتا ہے وہ کبھی بھی مرگلہ لینے کا نہیں سوچے گا۔ بعد ازاں مارگلہ کی جگہ بلینو نے لے لی لیکن بد سے بدنام برا کے مصداق سوزوکی کی سیڈان گاڑیاں پٹتی ہی رہیں۔اس دوران کِیا موٹرز نے اسپیکٹرا بھی پیش کی لیکن وہ بھی کرولا اور سِوک کے قریب نہ پھٹک سکی۔ ہونڈاسِوک کے بعد اگر کسی گاڑی نے کرولا کے مقابلے کی کوشش کی ہے تو وہ ہونڈا سِٹی ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نسان کی 4 گاڑیاں جو پاکستان میں مقبول ہوسکتی ہیں
مجموعی طور پر سیڈان گاڑیوں میں ہونڈا سِوک بمقابلہ ٹویوٹا کرولا ہی نظر آتا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں کرولا کا کوئی بھی حقیقی مقابل نظر نہیں آتا۔ ٹویوٹا اس وقت گاڑیوں کے شعبے پر راج کر رہا ہے۔ کرولا ایک ایسا گھوڑا ہے جو ہر بار دوڑ میں فتحیاب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دوڑ میں شریک دیگر گھوڑے پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔