فرانسیسی آٹو مینوفیکچرر اب تک پاکستان سے گیا نہیں ہے کیونکہ وہ آٹوموبائل ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) 2016-21ء کے تحت پیش کردہ ٹیکس فوائد میں توسیع کا خواہشمند ہے۔
رینو (رینالٹ) کی جانب سے پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لینے کی خبر گزشتہ دو ماہ سے گردش میں ہے۔ اقتصادی عدم استحکام اور آٹوموبائل انڈسٹری کے حوالے سے حکومت کی غیر مستقل پالیسیوں کی وجہ سے فرانسیسی کار میکر ملک میں اپنے آپریشنز کے آغاز کے حوالے سے غیر یقینی کیفیت سے دوچار تھا۔ کمپنی نے پاکستان میں کاریں بنانے کے لیے گزشتہ سال نومبر میں الفطیم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ آٹومیکر نے اپنے مینوفیکچرنگ پلانٹ کے لیے فیصل آباد میں 54 ایکڑ زمین حاصل کی لیکن بعد ازاں خبر آئی کہ الفطیم نے مندرجہ بالا مسائل کی وجہ سے سرمایہ کاری کو روک دیا ہے۔ آٹومینوفیکچرر نے 140 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں اپنے منصوبے کا آغاز کیا کہ جس کی پیداواری گنجائش 50,000 گاڑیاں سالانہ ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق کمپنی نے ملک میں اپنے آپریشنز بند نہیں کیے، البتہ وہ آٹوموبائل پالیسی اور اسپیشل اکنامک زون ایکٹ کے ٹیکس فوائد کی توسیع کا خواہشمند ہے۔ دوسری جانب فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (FIEDMC) کے ایک عہدیدار نے کہا کہ کمپنی کے خدشات سے مثبت انداز میں نمٹا جا رہا ہے۔ آٹوموبائل ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) میں پیش کردہ رعایتوں نے کئی نئے اداروں کو ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی جانب مائل کیا۔ FIEDMC کے چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ رینو کے حکام کے ساتھ متعدد اجلاس ہو چکے ہیں جس کے بعد ہم نے ان معاملات کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے حکومت سے درخواست کی ہے۔
ملک میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) لانے کی کوشش میں سرمایہ کاروں کو مطمئن کرنا بہت ضروری ہے۔ رینو کی جانب سے سرمایہ کاری کا خاتمہ کرنے کی افواہیں درست نہیں کیونکہ آٹومینوفیکچرر مسائل کے حل کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کر رہا ہے۔ ADP کا خاتمہ 2021ء میں ہو رہا ہے جو دو سال دور ہے اور کمپنی کا ابھی اپنا پلانٹ بنانا باقی ہے۔ یہ رینو کے لیے بنیادی خدشہ ہے، جو مزید پانچ سالوں کے لیے آٹوموبائل پالیسی میں توسیع چاہتا ہے۔ البتہ توقع ہے کہ حکومت مارکیٹ میں موجود نئے اداروں کی سرمایہ کاریوں کو تحفظ دینے کے لیے اس پالیسی کو دو سال کے لیے توسیع دے سکتی ہے۔ آٹومیکرز حکومت کی جانب سے مستقل پالیسی بھی چاہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے آٹو سیکٹر میں موجود رہیں۔ مزید برآں، FIEDMC کو سرمایہ کاری کی منسوخی کے حوالے سے بھی کوئی ای میل موصول نہیں ہوئی،جو ظاہر کرتا ہے کہ کمپنی کو چند مسائل کا سامنا تو ہو سکتا ہے لیکن وہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔ کمپنی نے گزشتہ سال تعمیراتی کام شروع کیا تھا لیکن حکومت کی پالیسیوں پر تحفظات کی وجہ سے اسے روک دیا۔
حکومت نئے اداروں کو سرمایہ کاری جاری رکھنے کے لیے آزاد رکھنا چاہتی ہے لیکن اس کے لیے آٹو موبائل پالیسیوں میں بہت تسلسل کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے رینو پاکستان سے نہ جائے لیکن امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گھٹتی ہوئی قدر مقامی مارکیٹ میں قدم جمانے کی خواہش رکھنے والے کسی بھی آٹومیکر کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ اقتصادی عدم استحکام ان کمپنیوں پر آہستگی سے اثرات مرتب نہیں کرتا کہ جن کو اپنے آپریشنز جاری رکھنے کے لیے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ مینوفیکچرنگ کی لاگت بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور مارکیٹ حجم تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ صارفین کی قوتِ خرید سال بھر کے عرصے میں کم ہوئی ہے اور آٹو کمپنیز مارکیٹ میں جمے رہنے کے لیے جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ہماری طرف سے اتنا ہی۔ اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور رینو کے بارے میں مزید خبروں کے لیے آتے رہیے۔