بدھ کے روز ہونے والی سنوائی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے مخصوص مینوفیکچررز کے چنگ چی رکشوں کو چلنے کی اجازت دے دی۔
آل کراچی رکشہ ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کئے گئے کیس پر سپریم کورٹ بینچ کے جسٹس گلزار احمد نے وضاحت کی۔ اعلی عدلیہ کا کہنا تھا کہ صرف منظور شدہ مینوفیکچرر کے چنگ چی رکشوں کو ہی پاکستان کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت دیں گے۔
اس سے پہلے، سندھ ہائی کورٹ نے چنگ چی رکشوں کے خلاف موٹر وہیکلز رولز 1969 کے رول 2 کے تحت قانونی کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔
چنگ چی رکشوں کے روٹس پر بات کرتے ہوئے عدلیہ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ چنگ چی رکشوں کے روٹس وضع کریں۔
دو رکنی بینچ نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کی آمدورفت کے لیے میٹرو، گرین بس، اور اورنج ٹرین جیسے پروجیکٹ بنا رہی ہے لیکن چنگ چی رکشوں کو ریگولیٹ کرنے میں زرا دلچسپی نہیں لیتی جبکہ چنگ چی رکشہ ان زرائع کی نسبت زیادہ بڑا نیٹ ورک رکھتے ہیں اور ان سے زیادہ سستے ہیں اور یہ روز ہزاروں پاکستانیوں کو سفری سہولت فراہم کرتے ہیں۔
بینچ نے حکم دیا کہ حکومت چنگ چی رکشوں کو اس طرح سے ریگولیٹ کرے جو تمام سٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہو۔ سنوائی کے دوران پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق مرزا نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پنجاب ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سرکلر پر روشنی ڈالی گئی جس میں ان چنگ چی رکشوں کی خصوصیات درج تھیں جنہیں عوامی سواری کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صوبائی حکومت نے لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں ٹو سٹروک رکشوں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ صوبے میں چنگ چی رکشے 2001 سے رجسٹر کئے جا رہے ہیں اور مختلف مینوفیکچررز کو خاص خصوصیات کے حامل چنگ رکشوں کی پروڈکشن کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ صوبائی حکومت نے اب تک 9897 غیر قانونی رکشوں کے خلاف کاروائی کی۔ مزید یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ چنگ چی رکشوں کے 8211 فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ بھی جاری کئے گئے ہیں۔