پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری مختلف آٹو مینوفیکچررز کے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والے ماڈلز تک کی فروخت میں زبردست کمی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے آنے والی کمی کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں تھوڑے سے وقت میں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ موجودہ آٹو ادارے اپنی گاڑیاں فروخت کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ نئے آنے والے ادارے بے یقینی کی صورت حال سے دوچار ہے کیونکہ وہ مقامی انڈسٹری میں طویل المیعاد سرمایہ کار کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔ حکومت نے مقامی طور پر بننے والی گاڑیو پر نئے اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے کہ جس سے گاڑیوں کی قیمتیں اور بڑھ گئی ہیں۔ صارفین کی قوتِ خرید گر چکی ہے اور حیران کن طور پر اب پاکستان میں ابتدائی درجے کی ہیچ بیکس بھی 10 لاکھ روپے سے مہنگی ہیں۔
پاک سوزوکی، ہونڈا اٹلس اور ٹویوٹا انڈس ملک میں نمایاں آٹو مینوفیکچرر ہیں جن کے ساتھ کچھ نئے ادارے اپنا راستہ بنا رہے ہیں پچھلے پانچ مالی سال کے اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ کاروں کی فروخت کا بڑھتا ہوا رحجان مالی سال 2019-20ء میں یکدم زوال کا شکار ہو گیا ہے۔ اور زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم مقامی مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ماڈلز کی بات کر رہے ہیں جن میں سوزوکی ویگن آر، ہونڈا سٹی/سوِک اور ٹویوٹا کرولا شامل ہیں۔ ان ماڈلز کے لیے بھی حالات یکدم تبدیل ہو گئے ہیں اور کمپنیاں اپنی انوینٹوریز خالی کرنے میں مشکل کا شکار ہو رہی ہیں اور اسی وجہ سے پیداوار کو گھٹانے پر مجبور ہیں۔ پچھلے سال تک ویگن آر مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس کی فروخت میں مالی سال 2019-20ء کے پہلے دو مہینوں میں 71.50 فیصد کی بڑی کمی آئی ہے اگر اس کا تقابل ہم پچھلے مالی سال یعنی 2018-19ء کے ابتدائی دو ماہ سے کریں۔ کمپنی نے سال 2018-19ء کے ابتدائی دو مہینوں میں 5,222 یونٹس فروخت کیے تھے جبکہ اس مالی سال کا آغاز 60 دنوں میں صرف 1,488 یونٹس کی فروخت کے ساتھ ہوا ہے۔ اگر ہم ماضی میں مزید پیچھے جائیں تو سوزوکی 2015-16ء میں 1,184 یونٹس فروخت کیے تھے اور اس کے بعد سے ہر گزرتے سال فروخت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ 2016-17ء میں فروخت 2,352 یونٹس تک پہنچی جبکہ 2017-18ء میں 4,137 یونٹس فروخت ہوئے۔ یعنی ہر گزرتے مالی سال کے ساتھ اس ہیچ بیک کی فروخت میں قابلِ قدر اضافہ ہی ہوتا رہا یہاں تک کہ 2019-20ء آ گیا۔ فروخت میں آنے والی کمی کی ایک وجہ نئی 660cc آلٹو کا لانچ ہونا بھی ہے۔ پاک سوزوکی نے مالی سال 2019-20ء کے پہلے دو مہینوں میں آلٹو کے 8,019 یونٹس فروخت کیے ہیں۔ یہ زبردست فروخت ظاہر کرتی ہے کہ ویگن آر کی فروخت آلٹو کی جانب منتقل ہوئی ہے کہ جو زیادہ فیچرز سے لیس ہے لیکن 660cc انجن کے ساتھ آتی ہے۔ آلٹو کی قیمت 1.135 ملین روپے سے شروع ہوتی ہے اور تقریباً 14.33 ملین روپے تک جاتی ہے۔ دوسری جانب ویگن آر کا بنیادی ویرینٹ بھی 1.54 ملین روپے کا آتا ہے۔ 2.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کے نفاذ نے بھی ویگن آر کی قیمت میں بڑا اضافہ کیا کہ جس سے صارفین کو متاثر کیا۔
دوسری جانب ہونڈا اٹلس بھی سوِک اور سٹی کی فروخت میں جدوجہد کا سامنا کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ کمپنی اپنی دونوں سیڈانز کی الگ الگ فروخت ظاہر نہیں کرتی۔ کُل ملا کر آٹومیکرز نے 2019-20ء کے مذکورہ عرصے میں صرف 3,708 یونٹس فروخت کیے جبکہ پچھلے سال یہ تعداد 8,078 تھی یعنی اس کی فروخت میں 68.33 فیصد کمی آئی ہے۔ دونوں ماڈلز کی فروخت بھی 2015-16ء سے عروج کی جانب گامزن تھی کہ جب 4,183 یونٹس بیچے گئے تھے۔ اگلے سال کمپنی نے 5,295 یونٹس فروخت کیے اور آگے بڑھنے کا رحجان برقرار رکھا اور 2017-18ء میں 7,765 یونٹس بیچے۔ ہونڈا سٹی اب 20 لاکھ روپے سے کم قیمت کی گاڑی نہیں رہی اور اب اس کی قیمت 1.3L بنیادی ویرینٹ کے لیے شروع ہی 23 لاکھ روپے سے ہوتی ہے۔ ہونڈا سوِک کی قیمت بھی مقامی مارکیٹ میں 35 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ دونوں گاڑیوں پر 5 فیصد FED کے اطلاق نے بھی قیمتوں میں اضافے میں اپنا کردار ادا کیا۔
پاکستان میں مشہور ترین کار ٹویوٹا انڈس کی ٹویوٹا کرولا ہے جو مختلف انجن طاقت کے ساتھ متعدد ویرینٹس میں آتی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے ٹویوٹا جولائی اور اگست میں مسلسل 8,000 سے زیادہ یونٹس فروخت کرت آئی ہے۔ البتہ 2019-20ء کے اسی دورانیہ میں جاپانی آٹو میکر نہ صرف 8,000 یونٹس بلکہ اس کے آدھے بھی فروخت کرنے میں ناکام رہا۔ کمپنی نے صرف 3,708 یونٹس بیچے، اور یوں 57.71 فیصد کی واضح کمی ریکارڈ کی۔ ٹویوٹا کرولا کی ابتدائی قیمت اب 25 لاکھ روپے ہے اور 1.8L آلٹس گرینڈ CVT کے لیے یہ قیمت 37 لاکھ روپے تک چلی جاتی ہے۔
اوپر دیے گئے اعداد و شمار نے ظاہر کیا کہ گاڑیوں کی بھاری قیمتوں اور صارفین کی قوتِ خرید میں آنے والی کمی کی وجہ سے ملک میں کاریں خریدنے کا رحجان تیزی سے زوال کا شکار ہے۔ ہونڈا اور ٹویوٹا دونوں نے پچھلے دو مہینوں میں اپنی پیداوار گھٹائی ہے۔ کمپنیاں نئے یونٹس تیار کرنے سے پہلے اپنی انوینٹوریز کو خالی کرنے میں ناکامی کا سامان کر رہی ہیں۔ البتہ پاک سوزوکی نے اعلان کیا کہ کمپنی اپنی پیداوار نہیں گھٹائے گی۔ لیکن چند دن ہی گزرے تھے کہ کمپنی نے اپنے مجاز ڈیلرز کو اپنے چند ماڈلز کی بکنگ عارضی طور پر معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔ ان ماڈلز میں شامل ہیں:
سوئفٹ DLX
میگا کیری (ہمیشہ کے لیے بند)
وِٹارا
کلٹس VXR
آلٹو VX
ویگن آر VXR
حیران کن طور پر آلٹو بھی اپنے VX ویرنٹ کے ساتھ اس فہرست میں موجود ہے جو ابھی چند مہینے پہلے ہی لانچ ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر فروخت کے معاملے میں گاڑی کی کارکردگی اچھی ہے جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ ویگن آر اور کلٹس کا بنیادی ویرینٹ بھی تین رنگوں لال، نیلے اور کالے میں بند ہونے والی گاڑیوں میں شامل ہے۔
حکومت کو جلد از جلد اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نئے ادارے انڈسٹری میں داخل ہو رہے ہیں اور انہیں مارکیٹ شیئر حاصل کرنے میں مدد دینے کے لیے حکومت کی جانب سے مستقل پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت حال میں کہ جو پہلے سے موجود آٹو مینوفیکچررز کے لیے تباہ کن ہے، نئے اداروں کا مستقبل مزید تاریک نظر آتا ہے۔ کِیا نے مقامی مارکیٹ میں چند دن پہلے اپنی درمیانے سائز کی ہیچ بیک پکانٹو لانچ کی۔ کمپنی کو پاکستان میں اپنی آمد کو کامیاب کرنے کے لیے اعتماد کی ضرورت ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں آنے والی تیز رفتار اور ریکارڈ کمی نے ملک کی معیشت کو بری طرح متار کیا ہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو صنعت کی بحالی کے لیے کاروں پر لگائی گئی اضافی ڈیوٹیاں اور ٹیکس واپس لینے کی ضرورت ہے۔ اس سے فروخت کو بڑھانے اور آٹو مارکیٹ کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
آپ پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟ اپنے قیمتی خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔