آٹو سیکٹر کے حصص میں اضافے کے پیچھے کیا؟

0 182

حالیہ ڈیڑھ ماہ میں آٹو سیکٹر کے اسٹاک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے جس نے سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کہیں یہ مصنوعی اضافے کا نتیجہ تو نہیں۔

حالیہ کچھ عرصے میں پاک سوزوکی کے اسٹاک کی قیمتوں میں 74 فیصد کا زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو 15 فروری 2019ء کو 302 روپے پر کھڑا ہے۔ اسٹاک قیمتوں میں اضافے کا یہ رحجان 2019ء کے ساتھ شروع ہوا جس سے پہلے 31 دسمبر 2018ء کو پاک سوزوکی کے اسٹاکس کی قیمت 174 روپے تھی۔ اتنا اضافہ، بالخصوص پاک سوزوکی کے ضمن میں، مارکیٹ پر متعدد سوالیہ نشانات اٹھاتا ہے۔ ہر کسی کو ایک مصنوعی بحران کا شبہ ہوا جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ آٹو سیکٹر کے تجزیہ کاروں کی سوچ کچھ مختلف ہے جو اسے تکنیکی و بنیادی وجوہات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

جب ہم مئی 2017ء میں دیکھتے ہیں تو اسٹاکس کی قیمت 936 روپے کی قیمت پر چل رہی تھی، جس کے بعد مارکیٹ کی صورت حال خراب ہوتی چلی گئی اور یوں 2018ء کے اختتام پر پاک سوزوکی کے شیئر 81 فیصد کمی کے بعد 174 روپے تک آ گئے۔ البتہ مارکیٹ نے اپنی کم ترین قیمت کے بعد واپسی کی۔ دوسری جانب آٹو سیکٹر کے لیے حکومتی پالیسیوں نے حالیہ وقت میں پاک سوزوکی کو فائدہ پہنچایا۔جس کی ایک اہم جھلک نان-فائلرز پر 1300cc تک کی نئی گاڑیاں خریدنے پر عائد پابندی کا ہٹا دینا ہے جس کا اعلان 23 جنوری 2019ء کو وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ میں کیا۔ اس پابندی کا نتیجہ آٹومیکرز کی پیداوار اور فروخت میں 32 فیصد کمی کی صورت میں نکلا۔ اس کے علاوہ کمپنی کا مہران کی جگہ منصوبہ مکمل طور پر نئی اور مقامی طور پر اسمبل شدہ آلٹو متعارف کروانے کا فیصلہ بھی کافی سخت ثابت ہوا۔ لیکن خوش قسمتی سے آلٹو کی آٹھویں جنریشن پیش کرنے سے پہلے کمپنی کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔

مزید برآں، سوزوکی کی جانب سے موجودہ پلانٹ کے برابر میں نئے پلانٹ کی تعمیر پر 460 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے فیصلے کے ساتھ ہی اسٹاکس میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی بڑھ گئی۔ پاکستان کا آٹوسیکٹر اپنے ترقی کرتے دور سے گزر رہا ہے جس میں نئے ادارے اپنی گاڑیاں پیش کریں گے، پھر بھی صنعت خوش ہونے میں ناکام رہی۔ ہیوی کمرشل گاڑیوں (HCV)کے اسمبلرز نے 1300cc تک کی گاڑیاں خریدنے پر نان-فائلرز پر عائد پابندی اٹھانے کے فیصلے سے فائدہ نہ پانے پر آواز اٹھائی۔ ہونڈا پاکستان کو بھی انجن گنجائش کی حد میں کچھ اضافہ کرنے کی امید ہے کیونکہ اس پابندی کے خاتمے سے صرف سوزوکی، ٹویوٹا، یونائیٹڈ اور فا کو فائدہ ہوگا۔

آٹو سیکٹر کے دیکھنے والے ان پیشرفتوں پر کڑی نگاہیں رکھے ہوئے ہیں کیونکہ نرمی کا وقت آنے کی توقع ہے۔ اس وقت صنعت کو ریگولیٹری کی غیر یقینی کیفیات، کمزور اقتصادی نمو، امریکی ڈالرز کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ صارفین کی قوتِ خرید میں واضح کمی آنے کا سامنا ہے۔ لیکن اب نئے اداروں کی پاکستان کی آٹوموبائل میں آمد کے ساتھ تبدیلی کی ہوا دروازے پر دستک دے رہی ہے۔وہ وقت دور نہیں جب موجودہ اسمبلرز کو مقامی سرمایہ کاروں کے مشترکہ منصوبے سے اپنی گاڑیاں مارکیٹ میں پیش کرنے والے غیر ملکی اداروں سے مقابلے کا براہ راست سامنا ہوگا۔ کِیا، لکی موٹرز، نشاط ہیونڈائی، یونائیٹڈ آٹو، الفطیم-رینالٹ، دیوان موٹرز، ریگل آٹو، فوکس ویگن، گندھارا نسان اور BAIC سازگار آٹوموبائل پالیسی 2016-2021ء سے ان اداروں میں شامل ہیں جو مارکیٹ میں نئے داخل ہونے والے اداروں کےلیے پیش کردہ فوائد کی بدولت گرین فیلڈ اسٹیٹس حاصل کر رہے ہیں۔ ہیوی گاڑیوں کے شعبے میں ماسٹر فوٹون موٹرز پاکستان میں اٹلی کے اویکو ٹرک اسمبل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہاہے۔

دوسری جانب وزارت تجارت نے گاڑیوں کی درآمد کے عمل کو باضابطہ کیا ہے جس میں گاڑی برآمد کرنے والے بیرونِ ملک مقیم فرد کی جانب سے براہ راست ڈیوٹی اور ٹیکس غیر ملکی زر مبادلہ میں ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے نفاذ سے ڈیلرز کی جانب سے درآمد شدہ گاڑیوں پر پریمیم لگانے کے غیر قانونی عمل کی بڑی حد تک حوصلہ شکنی ہوگی۔ گاڑیوں کی درآمد کی صرف بیگیج، ٹرانسفر آف ریزیڈنسی یا گفٹ اسکیم کے تحت اجازت ہوگی۔ یوں تاجروں کی جانب سے بغیر لیٹر کے افراد کے نام پر گاڑیاں درآمد کرنے کا عمل اب ممکن نہیں ہے۔

ٹاپ لائن سکیورٹی کے ایک ریسرچ اینالسٹ کے مطابق آٹوموبائل شعبے میں اقتصادی اصلاحات کے باوجود گاڑیوں کی فروخت میں کمی جاری رہے گی۔ جنوری میں سال بہ سال میں 4 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ 2018ء کے آخری مہینے کے مقابلے میں 1 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ 2018ء کے ابتدائی سات ماہ میں کل 1,43,000 یونٹس فروخت ہوئے تھے، اعداد و شمار کے مطابق یہ سال بہ سال میں 3 فیصد کی کمی ہے۔ البتہ انڈس موٹرز نے جنوری 2019ء میں سال بہ سال میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا جس کی بڑی وجہ کرولا کے مختلف ویرینٹس کی فروخت میں ہی ہونے والا 26 فیصد سالانہ اضافہ تھا۔ ہائی لکس اور فورچیونر گاڑیوں کی فروخت میں بھی سالانہ بنیادوں پر بالترتیب 5 اور 45 فیصد کمی دیکھی گئی۔ ہونڈا پاکستان کی فروخت میں بھی سٹی اور سوِک کے مشہور ماڈلز کی بدولت سال بہ سال میں 3 فیصد اضافہ ہوا۔ علاوہ BR-V سالانہ بنیادوں فروخت میں مزید 2 فیصد کمی کے ساتھ بدستور زوال پذیر رہی۔

انڈس موٹر کے اسٹاک کی قیمت 1293 روپے تک ریکارڈ کی گئی جبکہ ملت ٹریکٹرز کے حصص 858 روپے تک پہنچے۔ دیگر اداروں میں الغازی ٹریکٹرز کے اسٹاک کی قیمت 483 روپے، ہینو پاک موٹرز 458 روپے، اٹلس ہونڈا 384 روپے، ہونڈا اٹلس کارز کے 233 روپے اور پاک سوزوکی 302 روپے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ گاڑیوں کی فروخت میں دھیمے رحجان کو دیکھتے ہوئے ایک آٹوموبائل کمپنی کے ایگزیکٹو نے کہا کہ یہ کئی کمپنیوں کے سرمائے کو نقصان پہنچانے کا بڑا سبب بنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آٹوموبائل کمپنیاں اب بکنگ کے وقت کے بعد ایک ماہ میں گاڑیاں پہنچانے کی خواہاں ہیں جبکہ اس سے پہلے چار سے چھ ماہ میں گاڑی پیش کرنے کا رحجان تھا۔

پاکستان کے آٹو سیکٹر میں اگلے چند سالوں میں زبردست مقابلہ ہونے والا ہے۔ آپ مستقبل میں آٹوموبائل صنعت کو کس طرح آگے بڑھتا دیکھتے ہیں؟ ہمیں بتائیں اور یہ اور دیگر آٹوموبائل متعلقہ خبروں کے لیے پاک ویلز سے منسلک رہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.