پاکستان کی موٹر سائیکل انڈسٹری دوہری مشکل کاشکار۔

0 225
پچھلی چند دہائیوں میں ٹیکنالوجی نے کئی رخ اپنائے۔گلوبل آٹو موبائل انڈسٹری کافی مختلف ہے اور جدیداور قابلِ اعتماد پراڈکٹس کے حوالے سے ہمیشہ ہی کشمکش میں مبتلا رہی ہے۔لیکن اگر پاکستان کی آٹو موٹِوانڈسٹری میں خصوصاً موٹر سائیکل انڈسٹری کی بات کی جائے تو چیزیں اس سے کافی مختلف نظر آئیں گی۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش مارکیٹ رکھتا ہے۔ آبادی کا ایک بڑا ہجوم جو کہ مڈل کلاس طبقہ کہلاتا ہے جن میں کم آمدن والے نوجوان بھی شامل ہیں جو موٹر سائیکل کوایک پاکستانی کے لئے پرائم،آزمودہ،کم خرچ بناتے ہیں۔
لوکل موٹر سائیکل انڈسٹری دو بڑے جاپانی دھڑوں پر مشتمل ہے جن میں (اٹلس ہنڈا )اورسوزوکی یا یاماہاموٹرزاور کئی مقامی مینوفیکچررز اور اسیمبلرز شامل ہیں جو ہر سال دو ملین سے زیادہ یونٹس بناتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ مارکیٹ دو طرح کے انجنوں ستر سی سی اور ایک سو پچیس سی سی کے گرد گھومتی ہے۔ستر سی سی انجن دنیا سے کم یا زیادہ متروک ہے،لیکن پاکستان میں یہ ایک سو پچاس سی سی انجن کی کیٹیگری سے زیادہ بھروسہ مند ہے۔پاکستان آٹو موٹِو مینوفیکچرر ایسوسی ایشن(پی اے ایم اے) کی تازہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2016سے لے کر مارچ2017تک ایک ملین یونٹ بنائے گئے جن میں اکیاون فیصد موٹر سائیکلز جاپانی نامور کمپنی اٹلس ہنڈا نے تیار کیں۔1960میں اپنے آغاز سے لے کر ابھی تک سی ڈی 70اور سی جی 125کمپنی کی جانی پہچانی مشینیں ہیں ۔
اس اعلیٰ تعداد کو قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم جائزہ لیں تو ،ان میں سے کو ئی مینوفیکچرر مقامی طور پرکسی بھی قسم کا نیا ڈیزائن یا نئی پراڈکٹ اسیمبل اور مینوفکچر نہیں کر رہا۔ستر سی سی اور ون ٹو فائیو سی سی کے صدیوں پرانے ڈیزائن ابھی بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتے ہیں ۔جو بھی ہو ہم ان ایجادات کی کمی کا ذمہ دار صرف مینوفیکچررز کو ہی نہیں ٹھہرا سکتے ۔بلکہ ،اس میں صارف بھی برابر کے شریک ہیں۔مارکیٹ کو صارفین کی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا جو کہ ابھی تک 125سی جی نئے ہنڈے کے تصور سے باہر نہیں نکل سکے۔اس کی ایک بڑی مثال یاماہا موٹرز کی صورت میں ملتی ہے جنہوں نے 2013اور 14کوپاکستانی مارکیٹ میں کچھ جدید ،بہتر اور جاذبِ نظر موٹر سائیکلز کے ساتھ واپسی کی جیسے (وائی بی آر 125اور وائی بی آر125جی)،مگر اس کا نتیجہ ذرا ٹھنڈا اور سست نظر آیا جو کہ سی جی 125کی صدیوں پر محیط مناپلی کو ختم نہیں کر پایا۔چنانچہ اس نے سوزوکی جی ایس150کو کڑی ٹکر دی جو کہ اسی قیمت میں بڑا انجن رکھتی ہے۔صارفین کی توقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے،یاما ہا نے لوکل مارکیٹ کی ضروریات کو بھی مدِنظر رکھا ہے اور حال ہی میں وائی بی125زی پر مشتمل ایک ریٹرو ڈیزائن بھی متعارف کروایا ہے جو بنا ڈِسک بریک اور الائے رِمز کے ہے جو کہ دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں عام تصور کیا جاتا ہے۔ےہ ایک واضح ثبوت ہے کہ آنے والے چند سالوں میں،یاماہا پاکستان وہ ماڈلز جو وہ دنیا بھر میں لانچ کر رہا ہے ان کی بجائے ریٹرو سٹائل پراڈکٹس پر زور دے گا۔
لوگ یاماہا پاکستان اور اٹلس ہنڈا کو ان کی انڈین مدِمقابل سے بھی تشبےح دیتے ہیں ،جو کئی وجوہات کی بنا پر غیر درست ہے ۔یاماہا انڈیا ماضی میں2001میں تخلیق کی گئی اور انڈین مارکیٹ ہمیشہ سے ہی پاکستانی آٹو مارکیٹ سے کافی مختلف صورتحال رکھتی ہے،جیسے مارکیٹ سائیز اور انڈین مارکیٹ میں پراڈکٹ کا استعمال جو کہ پاکستان کے مقابلے چھ سے سات گنا زیادہ ہے۔یاماہا انڈیا صارفین کو پندرہ سے زائد پراڈکٹس دے رہی ہے جو کہ جدید ڈیزائن ٹیکنالوجی فیچرز اور مختلف قیمتوں پر مشتمل ہیں۔مقامی مینوفیکچرر بجاج نے انڈیا میںلوگوں کی سوچ کو ریٹرو موٹر سائیکل سے ماڈرن میں تبدیل کیا ہے۔ یہاں پر پاکستانی کمپنیز اور مینو فیکچررز کو بھی اپنی محدود پالیسی جاری رکھنے کی بجائے صارفین کے ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
اب تصویر کے اچھے پہلو کا رخ کرتے ہیں،کچھ مقامی اسیمبلرز جیسا کہ سپر پاور اور یونیک نے چائنہ کے کچھ مینوفیکچررز سے مل کر 150اور 200سی سی کیٹگری کی نئی موٹر سائیکلز متعارف کروائی ہیں جو کہ بہتر آپشنز،شکل اور ڈیزائن فیچرز رکھتی ہیں۔لیکن ابھی تک لوکل مینوفیکچررز ان یونٹس کو یہاں نہیں بنا رہے بلکہ مکمل شکل میں چائنہ سے منگوا رہے ہیں۔باہر سے مکمل یونٹس منگوانے کا منفی پہلو ان موٹر سائیکلوں کی قیمتوںمیں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے جو کہ اسی میعار میں مقامی طوربنانے کی بجائے باہر سے منگوانے کی ڈیوٹی چارجز اور ٹیکسز کی وجہ سے ہوتا ہے۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جنرل ٹرینڈ جو کہ ان غیر ملکی موٹر سائیکلوں سے منسلک کیا جاتا ہے وہ ہے ”ڈسکاﺅنٹینیشن فیز“جس کا مطلب ہے کہ یہ موٹر سائیکلز غیر ملکی ہیں اور کم تعداد میںآئی ہیں،اور فروخت ہونے کے بعدلوکل اسیمبلر ان کی امپورٹ روک دیتے ہیںجو کہ کسٹمر بیس کو کمزور بناتی ہے اوربعد از فروخت میں نہائت کمی اور آفٹر سیل سروسز میں خوفناک نتیجے کا بائث بنتی ہے۔آخری نا کہ اختتامی،وہ یہ کہ اس کا ایک اور منفی پہلو ہے ،یہ پاکستان سے ڈالرز کے انخلاءکا بائث بھی ہے۔
 اگر گورنمنٹ آٹو پالیسی پر نظر ثانی کرے اور موٹر ٹائیکل مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی کرے کہ ٹیکس میں فوائد حاصل کرنے کے لئے وہ مقامی طور پر ہی بہترین انجن ،ٹیکنالوجی اور اضافی خصوصیات دیں تواس دوہری مشکل سے بچا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور جِدت وقت کی ضرورت ہے اوراگر پاکستانی موٹر سائیکل انڈسٹری مناسب قیمت اورجِدت کو ذہن میں رکھے تو اس میں تیزی سے آگے بڑھنے کا بہت زیادہ جذبہ ہے۔اور تو اور اس سے ان موٹر سائیکلوں کو اپنے پڑوسی ممالک تک لے جانے کے راستے بھی کھلیں گے

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.