جمعرات کو آل پاکستان ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن (APTOF) نے جرمانوں اور ٹول میں اضافے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ نومبر 2019ء میں وفاقی کابینہ نے جرمانوں اور ٹول میں اضافے کی منظوری دی تھی۔ حکومت APTOF کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی۔ اس صورت حال سے مایوس APTOF نے ہڑتال اور لاہور کے مختلف مقامات پر مظاہروں کا فیصلہ کیا۔ جمعے کو حکومت نے 11 دسمبر 2019ء کو جاری کیا گیا نوٹیفکیشن واپس لینے کا فیصلہ کیا، جس میں ہائی ویز اور موٹر ویز پر جرمانے اور ٹول بڑھائے گئے تھے۔ ہڑتال کے دوران مختلف شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہڑتال پشاور سے کراچی تک کی گئی۔
وزارت مواصلات نے موٹروے پولیس اور دیگر محکموں کو بھی نوٹیفکیشن کے خاتمے سے آگاہ کر دیا ہے۔ البتہ حکومت نے جرمانوں اور ٹول میں اضافے کے خیال کو مکمل طور پر خارج قرار نہیں دیا اور اب بھی سمجھتی ہے کہ محفوظ ہائی ویز اور موٹر ویز کے لیے جرمانوں میں اضافہ ضروری ہے۔ نوٹیفکیشن ٹرانسپورٹرز کے خدشات کی وجہ سے معطل کیا گیا ہے۔ حکومت اب تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کے بعد جرمانوں اور ٹولز میں اضافے کرے گی۔ جرمانوں میں اضافہ یکم جنوری 2020ء سے لاگو ہونا تھا۔ وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ جرمانوں اور ٹولز میں اضافہ ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ ہائی ویز اور موٹر ویز پر سفر کرنے والے عوام کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا۔ سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ اور حد سے زیادہ رفتار کی وجہ سے ہوتے ہیں جو گزشتہ چند سالوں میں کئی اموات کا باعث بن چکی ہے اور ایسے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
نوٹیفکیشن کے تحت حد سے زیادہ رفتار پر گاڑی چلانے پر موٹر سائیکل کے لیے 1,500 روپے اور کاروں کے لیے 2,500 روپے کا جرمانہ مقرر کیا گیا تھا۔ کمرشل گاڑیوں پر اوور لوڈنگ کرنے پر کار کے لیے 10,000 روپے کا جرمانہ تھا اور خطرناک ڈرائیونگ کرنے پر موٹر سائیکل پر 5,000 روپے اور ہیوی گاڑیوں پر 10,000 روپے کا جرمانہ لگایا گیا تھا۔ ٹرانسپورٹرز کے خیال میں یہ اضافہ بہت زیادہ اور غیر معمولی ہے۔ اس اضافے سے پہلے ہائی ویز اور موٹر ویز پر ہر خلاف ورزی پر 750 روپے کا یکساں جرمانہ تھا۔ پبلک سروس گاڑیاں جیسا کہ بسیں اور وینز کے جرمانوں میں سب سے زیادہ اضافہ کیا گیا تھا۔ ان گاڑیوں کی اوور اسپیڈنگ پر نوٹیفکیشن کے مطابق 10,000 روپے تک کا جرمانہ پڑ سکتا تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ گاڑی کم از کم25 سے 30 مسافر لے کر چلتی ہیں ایسی صورت میں حد سے زیادہ رفتار کئی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔
مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے اور اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔