1980 کی لاڈا: روس سے آنے والا محبت نامہ
روس کے لوگ عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ تھوڑے پاگل مگر بہت عجیب۔ شدید سردی میں رہنے کی وجہ سے یہ صرف سخت مزاج ہی نہیں بلکہ سخت جان بھی ہوتے ہیں۔ نپولین اور ہٹلر نے روس پر حملے کے لیے موسم سرما کا انتخاب کیا کہ شدید سردی میں مقابلہ کرنا ان کے لیے ناممکن ہوگا، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ روسی کچھ مغرور بھی ہوتے ہیں اور ان کا سب سے پسندیدہ مشروب مقامی شراب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے انٹرنیٹ پر روس کے حوالے سے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی عجیب و غریب ویڈیو ضرور دیکھی ہوگی جن میں اکثر یہ نشے میں دھت فضول و احمقانہ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
بہرحال، ہماری دلچسپی کی خبر یہ ہے روس کے نائب وزیر برائے صنعت اور تجارت جناب الدار منگالیو ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد ایوان صنعت و تجارت کے اراکین سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں جناب الدار نے پاکستان میں گاڑیوں اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے روس کی دلچسپی کا اظار کیا۔ توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے روسی ادارے گزپروم (Gazprom) نے پاکستان میں ایل این جی کی فراہمی کی پیش کش بھی کی ہے۔ گفتگو میں ‘شمال تا جنوب’ گیس پائپ لائن منصوبے کی 2020 تک تکمیل سے متعلق بھی بات ہوئی۔ روسی وفد نے ایل این جی اور دیگر قدرتی گیس کی نقل و حمل کے لیے خصوصی گاڑیاں اور ان کے پرزہ جات بنانے کے بارے میں بھی بات چیت کی۔
یہ بھی پڑھیں: [ماضی کے جھروکوں سے] 80 کی دہائی میں پیش کی گئی گاڑیوں پر ایک نظر
سب سے دلچسپ چیز جو مجھے اس پورے معاملے میں نظر آئی وہ ہے روس کا مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ پاکستان میں مسافر گاڑیاں تیار کرنے کا خیال ہے۔ اور یہ سنتے ہی میرے ذہن میں “پاکستانی لاڈا” کی تصویر نمودار ہوگئی اور میرے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ اس کا ذکر جب اپنے دوست سے کیا تو اس نے فوراً ہی میرے خیال کو مسترد کردیا۔ میں نے کہا کہ “یار مجھے لاڈا اچھی لگتی ہے” مگر اس نے کہا کہ “ہوگی، لیکن اتنی بھی اچھی نہیں جتنا تم سمجھتے ہو”۔ لاڈا کو جتنا میں جانتا ہوں، اس حساب سے تو دوست کی بات ٹھیک بھی لگتی ہے۔ البتہ میں نے روسی گاڑیوں کا انسائیکلوپیڈیا تو پڑھا ہوا نہیں۔ جتنی بھی معلومات ہے وہ ٹاپ گیئر سے لی ہیں۔ اور ہر ایک جانتا ہے کہ یہ میگزین اپنی غیر جانبداری کی وجہ سے زیادہ اچھی شہرت نہیں رکھتا۔ اور ویسے بھی ایک طویل عرصہ ہوا کہ جب میں نے روسی گاڑیوں سے متعلق کوئی طویل مضمون پڑھا ہو اس لیے اور بہت ساری گاڑیاں ہونے کے باوجود میرے ذہن میں تو بس لاڈا کے زمانے ہی کی گاڑیاں ہیں۔
میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو دنیا کے مختلف ممالک کی سیر کرچکا ہے۔ اس نے بتایا کہ روسی گاڑیاں ہماری مہران جیسی ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ روسی گاڑیاں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کچھ پیچھے ہیں لیکن اس کے باوجود کام پورا کرتی ہیں۔ میرے دوست نے روس میں لاڈا چلائی تھی جبکہ ایک اور دوست جو روس میں کئی سال رہائش پذیر رہا کا کہنا تھا کہ
روسی گاڑیاں بس عام سی ہی ہیں۔ لاڈا اپنے کام کی وجہ سے مشہور ہے جس میں پرتعیش اور آرامدے سفر کا تصور نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے دروازے بس کی طرح بند ہوتے ہیں البتہ سفر کا اپنا ہی مزہ ہے۔
جب میں نے اپنے دوست سے روسی گاڑیوں کے کم قیمت ہونے سے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا کہ شاید اس کی وجہ روسیوں کا ہنر مند ہونا ہے۔ وہ تقریباً آدھی صدی سے ان گاڑیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور اب انہیں گاڑیوں کے چھوٹے موٹے مسئلے خود ہی حل کرنا آگئے ہیں۔ اپنے ذاتی تجربات کے مطابق اس نے کہا کہ وولگا چلاتے ہوئے آپ کو 80 کی دہائی میں پیش کی جانے والی امریکی گاڑیوں کی یاد آتی ہے جو گاڑی کم اور کشتی زیادہ معلوم ہوتی تھیں۔
عام طور پر جب ہم یار دوست بیٹھ کر گاڑیوں سے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو روسی گاڑیوں کا ذکر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ لیکن سال 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ گاڑیاں بنانے والے ممالک میں روس کا نمبر 15 تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی گاڑیاں بہرحال خریدی جاتی ہیں۔ اشتراکی (کمیونسٹ) دور میں روس کی تیار کردہ گاڑیاں دیگر کمیونسٹ علاقوں میں بھیجی جاتی تھیں۔ اس وقت روس میں تقریباً 6 لاکھ افراد گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ملک میں مقامی گاڑیوں کی مشہوری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2010 میں ہر 10 میں سے 9 گاڑیاں مقامی طور پر تیار شدہ تھیں۔
روسی گاڑیوں کی چند مشہور برانڈز یہ ہیں:
لاڈا – 1966 تا حال
روس کا سب سے بڑا کار ساز ادارہ لاڈا ہے جس کا سرکاری نام AvtoVAZ ہے۔ لاڈا کی گاڑیاں اپنے خوبصورت انداز یا پرتعیش سفر کی وجہ سے مشہور نہیں بلکہ وہ آپ کو سخت سردی کے موسم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ لاڈا کی سب سے مشہور گاڑی لاڈا 2105 ہے۔ یہ پرانی فائیٹ 124 سیڈان کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ سال 2012 تک تقریباً 2 کروڑ لاڈا 2105 فروخت کی جاچکی ہیں۔
زِل – 1916 تا حال
ایک زمانے میں زِل پرتعیش گاڑیاں بناتی تھی تاہم اب وہ ٹرک اور بسیں بنانا رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مہنگی گاڑیاں اشتراکی دور کے ساتھ ہی اپنا مقام کھوبیٹھیں۔
وولگا – 1964 تا حال
یہ فورڈ موٹر کمپنی اور سوویت رشیا کے اتحاد کا نام ہے۔ وولگا کی گاڑیاں لاڈا کے مقابلے زیادہ آرامدے تصور کی جاتی ہیں۔ روس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں بھی وولگا ہی تیار کرتی ہے۔
موسکووچ – 1930 تا حال
یہ دراصل جرمن اوپل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس نے اوپل کو جرمنی سے خرید لیا اور یوں موسکووچ گاڑیاں بننا شروع ہوئیں۔ اب اس ادارے کا انتظام ووکس ویگن گروپ کے ہاتھ میں ہے۔
اب جبکہ روسی سرمایہ کار پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے میں دلچسپی لے رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ پاکستان ہی میں کارخانے قائم کریں گے یا پھر اپنی پرانی گاڑیوں کو ہی یہاں بھیجیں گے؟ یا پھر ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بنی بنائی گاڑیاں ہی روس سے پاکستان درآمد کرکے فروخت کی جائیں اور اگر واقعی ایسا ہوا تو یقین جانیے بہت برا خیال ہے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ نری بے وقوفی ہے کیوں کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دہائیوں پرانی فائیٹ کو لاڈا کی شکل میں پیش کردیا جائے۔ قدرے بہتر کام یہی ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں کارخانے بنائے جائیں اور گاڑیوں کو مقامی سطح پر تیار کیا جائے۔ اس سے کیا ہوگا؟ میں تفصیل سے بتاتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک CNG اسٹیشن کے قیام پر 4 کروڑ امریکی ڈالر بہا دیئے
پاکستان میں کارخانے کے قیام سے پہلا فائدہ ملازمتوں کی صورت میں ہوگا۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں کہ جب ملک میں ایک نیا کارساز ادارہ قدم رکھے گا تو اسے افرادی قوت بھی درکار ہوگی جو اس کے دفاتر میں مختلف شعبوں اور عہدوں پر کام کرسکے۔ اپنی سرگرمیوں کو احسن انداز سے چلانے کے لیے ادارہ ملک میں موجودہ بہترین قابلیت والوں کو بھرتی کرنا چاہے گا اور یوں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں دستیاب ہوں گی۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سستی گاڑیاں خریدنے کے خواہش مند افراد کو پسند کرنے کے لیے زیادہ گاڑیاں مل سکیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں روسی اداروں کو پاکستان میں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوں۔
دوسری وجہ کی مزید وضاحت کرتا چلوں کہ گاڑیاں بنانے والے روسی اداروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یوں ان کی گاڑیاں بہتر ہونے کے ساتھ سستی بھی ہیں جس کا فائدہ براہ راست صارف کو ہی پہنچے گا۔ میں نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کے مطابق حکومت پاکستان ہونڈا سِٹی جیسی گاڑیوں پر 30 سے 35 فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔ اس سےگاڑیوں کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔ مہران کی ہی مثال لے لیں کہ جس کی قیمت سوا 6 لاکھ روپے ہے لیکن ٹیکس کی وجہ سے کم از کم 2 لاکھ روپے اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ ایک ملازمت پیشہ شخص کتنے عرصے میں اتنے پیسے جمع کرسکے گا اور وہ بھی مارکیٹ میں دستیاب سب سے چھوٹی گاڑی کے لیے۔ لیکن روسی گاڑیوں کی آمد سے کیا ہوگا، مثلاً اگر لاڈا پاکستان میں دستیاب ہوتی ہے تو مہران کی قیمت میں زیادہ اچھی اور بڑی گاڑی کون نہیں لینا چاہے گا۔ یہ بات درست ہے کہ لاڈا 50 سال پرانی ہی ہے لیکن مہران کونسی ہمیں جدید ترین سہولیات سے آراستہ مل رہی ہے؟ اگر مہران یہاں چنے کی طرح بک سکتی ہے تو پھر لاڈا کیوں نہیں۔ آخر دونوں ہی برانڈز کا آغاز 80 کی دہائی سے ہی تو ہوا تھا۔ اس وقت آپ کو سستی سے سستی مہران بھی سوا 6 لاکھ روپے سے زائد ہی کی ملے گی تو پھر کیا برائی ہے اگر آپ کو 5 لاکھ میں سیڈان گاڑی مل جائے۔ اگر پیسے زیادہ ہوں تو آپ کے پاس بہت اچھی گاڑیاں خریدنے کا موقع ہے لیکن اگر بجٹ کم ہے تو پھر میں لاڈا کو مہران پر ضرور فوقیت دوں گا۔ ہاں، اگر پاکستان میں تیار ہونے والی لاڈا کی قیمت مہران سے زیادہ ہوئی پھر نتائج میری توقعات کے برخلاف ہوسکتے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آیا روسی کار ساز ادارے اپنے پرانے برانڈز ہی پاکستان لے کر آئیں گے یا پھر جدید گاڑیوں کو بھی یہاں تیار یا پیش کرنے سے متعلق سوچیں گے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں کہ روسی ادارے پرانے زمانے ہی کی گاڑیاں نہیں بناتے بلکہ یورپی اور امریکی برانڈز کی مدد سے جدید ماڈلز بھی تیار کرتے ہیں۔ روس اپنی اسپورٹس کار ماروشیا بھی بنا چکا ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ وہ دیوالیہ ہوگئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر روسی ادارے نئے برانڈز بھی یہاں تیار کر کے فروخت کریں تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ روس کے لیے بہترین ہوگا۔
بہرحال، یہ سب باتیں تو میرے تصورات ہیں جن کا حقیقت میں ہونا باقی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روس کا وفد مدہوشی میں اسلام آباد کے ایوان صنعت و تجارت میں آیا ہو، باتیں کی ہوں اور ہنسی خوشی چلا گیا ہوگا۔ اور جب صبح بیدار ہونے پر خبریں دیکھی ہوں تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہوں۔