سالانہ فنانس بل 2016-17 میں حکومت پنجاب نے درآمد کردہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ون ٹائم ٹیکس عائد کردیا ہے۔ درآمد کردہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے شرح منافع کی کمی میں اس فیصلہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ون ٹائم ٹیکس کو حکومت نے لگژری ٹٰیکس کا نام دیا۔ آئیے ہم درآمد کردہ گاڑیوں پر عائد کیے جانے والے اس ٹیکس کے نتائج کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ایک طرف حکومت ایندھن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہائبرڈ گاڑیوں کے حق میں تھی۔ ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد اور استعمال کو بڑھاوا دینے کے لیے حکومت نے 2013 میں ہائبرڈ گاڑیوں پر امپورٹ ڈیوٹی 50 فیصد تک کم کردی تھی۔ مگر درآمد کردہ گاڑیوں پر لگنے والے اس حالیہ لگژری ٹیکس کی وجہ سے ہائبرڈ گاڑیوں کے خریداروں کو ملنے والی سبسڈی ختم ہوگئی۔
میں اس پوائنٹ پر تنقید کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہائبرڈ گاڑیوں کو ساری دنیا میں سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ ہم ان کی مانگ کو زائد ٹیکس لگا کر کچل رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ تو کوئی بھی مقامی کار ساز سستی ہائبرڈ گاڑیاں بنانے کے قابل ہے اور نہ ہی حکومت ان کم ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیوں کو فروغ دے رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں بکھرا ہوا لگژری ٹیکس سٹرکچر ایک قابل بحث مسئلہ ہے۔ نیچے پنجاب میں درآمد شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر لگنے والے لگژری ٹیکس کا سٹرکچر دیا گیا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے خصوصی طور پر پنجاب کا کیوں زکر کیا؟ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسلام آباد میں درآمد کردہ گاڑیوں پر اس قسم کا کوئی بھی ٹیکس نافز نہیں کیا گیا۔ یہاں اسلام آباد میں رجسٹر کردہ ایک ٹویوٹا پرئیس کے سرٹیفیکیٹ کی تصویر دی گئی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ ایک ٹویوٹا پرئیس کو لاہور میں رجسٹر کروائیں گے تو آپ کو اضافی 150000 روپے کا لگژری ٹیکس دینا ہو گا، اگر اس ٹیکس کو پوری رجسٹریشن لاگت میں شامل کریں تو یہ 310000 روپے بنتے ہیں ( فائلر کے لیے)۔ تاہم اگر آپ اسی پرئیس کو اسلام آباد میں رجسٹر کروائیں گے تو اس پہ آپ کا 75000 روپے خرچہ آئے گا اور یہ چیز صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے جیسا کہ سندھ کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ درآمد کردہ 1800cc گاڑی پر صرف 5000 روپے کا معمولی سا لگژری ٹٰیکس وصول کر رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص درآمد کردہ گاڑی رجسٹر کروانے کے لیے اسلام آباد جائے تا کہ وہ پنجاب میں لگنے والے لگثرری ٹیکس سے بچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں رہنے والے بہت سے لوگ اس ٹیکس سٹرکچر سے بچنے کے لیے اسلام آباد میں رجسٹر کردہ سی بی یو کو فوقیت دیتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا بہت سا پیسہ بچتا ہے۔ آخر میں آپ کے لیے میں ایک انتہائی اہم سوال چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
ہمیں ایک بکھرے ہوئے ٹیکس سٹرکچر کو اپنانے کی کیا ضرورت ہے جو لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کے لیے متبادل راستے تلاش کریں، جب کہ پالیسی میکر اس بدترین مسئلہ کا آسان حل وضع کر سکتے ہیں؟