پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خاص طور پر گزشتہ چھ ماہ میں پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد اب صارفین کیلئے گاڑیاں خریدنا ممکن نہیں رہا۔ ان اقدامات کا PAMA کی طرف سے رپورٹ کردہ فروخت کے اعداد و شمار پر واضح اثر پڑا ہے۔ سیلز میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، خام مال کے حصول میں مشکلات اور کاروں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ ایک المناک کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان تمام چیزوں نے کار انڈسٹری کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
معیشت پر لہر کا اثر
یہ اعداد و شمار اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح معاشی بحران نے صارفین کے اعتماد کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اخراجات کو بھی کم کیا ہے جس سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے صرف مشکلات بڑھی ہیں۔ آٹو سیلز میں تیزی سے کمی کے باعث مینوفیکچررز پر وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے مجموعی معیشت پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں کاروں اور ٹرکوں کی فروخت میں کمی ہوئی، بسوں کے شعبے میں فروخت کے اعداد و شمار میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس بہتری کی بڑی وجہ ملک بھر میں شروع کیے گئے مختلف میٹرو منصوبوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس، ٹرک کے شعبے کو بھی پچھلے سال کے مقابلے میں فروخت میں 43.9 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔