گزشتہ رات حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کا اعلان کیا۔ حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل دونوں کی قیمتوں میں 30 روپے کا اضافہ کر دیا۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبی عوام کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کا بوجھ بانٹنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی وزراء، سرکاری افسران اور خود کے لیے فیول کوٹے میں 40 فیصد کمی کی منظوری دے دی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا سارا بوجھ قومی خزانے پر نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ خزانے پر بوجھ ڈالنے کا مطلب عوام پر بوجھ ڈالنا ہے۔
CM Sindh reduced the 40 % fuel ⛽️ Quota of cabinet members and government officials due to current inflation on petroleum prices. Purpose of this decision is to reduce financial burden on government.
— Sharjeel Inam Memon (@sharjeelinam) June 3, 2022
یہ اعلان سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے آج صبح ٹوئٹر پر پوسٹ کیے جانے کے بعد سامنے آیا۔
حکومت کے وزراء جج صاحبان اعلیٰ فوجی اور سول افسران قوم سے یکجہتی دیکھائیُ اور اپنے پٹرول الاؤنسز معطل کر دیں، جب تک قیمتیں واپس نہیں آتیں اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ عوام کی تکلیف میں حصہ دار بنیں، علامتی طور پر عوام کے ساتھ نظر تو آائیں آپ کے دورے ہی ختم نہیں ہو رہے
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) June 3, 2022
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ
پیٹرول کی قیمتیں عوام کیلئے ایک ٹائم بم بن چکی ہیں جو ہر پندرہ دن میں پھٹتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کا نیا طوفان نظر آتا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں پیٹرول کی قیمت میں 60 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
- پٹرول کی نئی قیمت 209.86 روپے فی لیٹر
- ڈیزل کا نیا ریٹ 204.15 روپے فی لیٹر
- مٹی کا تیل 181.94 روپے فی لیٹر
- لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 178 روپے فی لیٹر
نئی حکومت نے ایک ماہ تک پٹرول کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور عوام کے سامنے اپنا اچھا امیج پیش کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کو پیٹرول کی سبسڈی میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔
یہ سب حکومت کی غلط پالیسیوں اور پیٹرول کی قیمتوں میں 60 روپے فی لیٹر اضافے کے اقدامات کا باعث بنا۔ ایک ہفتے میں دو بار قیمت میں اضافہ کیا گیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہم مہنگائی اور کساد بازاری کے نئے طوفان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔