وضاحت! استعمال شدہ کاروں کی تجارت پر ایف بی آر کا نیا ٹیکس

0 3,620

سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) پر ایک نئے ‘ٹیکس’ کی خبریں ہیں جو استعمال شدہ کاروں پر  لگایا گیا ہے۔ اس نئے SRO سے پریشان ہونے  کی بنیادی وجہ ہے رجسٹرڈ (فائلر) افراد کے لیے ٹرانزیکشنز پر 17 فیصد ٹیکس اور نان-رجسٹرڈ (نان فائلرز) کے لیے 3 فیصد اضافی ٹیکس۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ نیا SRO عوام کے لیے نہیں ہے، بلکہ کار ٹریڈرز، ڈیلرز اور کاروباری افراد کے لیے ہے۔ اس لیے اس سے ذاتی سطح پر گاڑیوں کی خرید و فروخت پر اثر نہیں پڑے گا۔

میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ نیا ٹیکس ہے اور نیوز چینلز پر اس کی رپورٹنگ بھی  ہو رہی ہے۔ لیکن FBR نے اس حوالے سے اپنی وضاحت پیش کی ہے۔ سرکاری ادارے نے چند ٹوئٹس میں کہا ہے کہ موجودہ قانون پوری سَیل ویلیو پر سیلز ٹیکس چارج کرتا ہے، جو کہ ذرا سخت  اور حد سے زیادہ تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ بیورو نے فائنانس ایکٹ میں ایک نئی شق متعارف کروا کر ریلیف فراہم کیا ہے اور سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی refurbishing کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ FBR کا کہنا ہے کہ “ادارے نے بزنس کمیونٹی کی درخواست پر یہ قدم اٹھایا ہے۔”

اب آئیے ابہام پر بات کریں:

سب سے پہلے یہ کہ FBR کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون ذرا سخت اور حد سے زیادہ تھا، لیکن استعمال شدہ کاروں کی تجارت پر سیلز ٹیکس کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا ابہام ہے، کیونکہ اگر کوئی قانون ہے ہی نہیں تو وہ سخت کیسے ہوا؟

دوسرا سوال ہے کہ FBR ملک میں استعمال شدہ گاڑیوں  کی خرید و فروخت پر حساب کتاب کیسے لگائے گا اور نئے قانون کا اطلاق کیسے کرے گا؟ چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ بیورو نے یہ قانون ڈيلرز کے لیے لگایا ہے تو اس کے نفاذ کا طریقہ کیا ہے؟ مثلاً اگر ایک آدمی نے چند سال پہلے 16 لاکھ روپے کی کار خریدی، پھر اسے 20 لاکھ میں ایک ڈیلر کو فروخت کرتا ہے، اور ڈیلر اسے 22 لاکھ میں بیچتا ہے، تو FBR کار ڈيلر کے منافع یعنی 2 لاکھ روپے پر ٹیکس لے گا یا یہ اصل قیمت 16 لاکھ روپے پر لاگو ہوگا؟

ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیلر اپنے منافع 2 لاکھ روپے پر ٹیکس ادا کرے گا۔

منفی پہلو:

ایک اور امکان یہ ہے کہ حکومت نئی کاروں پر ‘اون’ کے کلچر کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عام بزنس  ہے، کسٹمر ہمیشہ ‘اون’ کیش میں ادا کرتا ہے، جبکہ مکمل قیمت کی ٹرانزیکشن بینکوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ حکومت اس پر روک کیسے لگائے گی کیونکہ اس کی عملی لاگت بہت زیادہ ہوگی۔

اس کے علاوہ اس سے مارکیٹ میں کیش ڈيلنگ میں بھی اضافہ ہوگا، جس سے بلیک منی اور فراڈ کی راہ ملے گی۔

اس پورے منظرنامے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں استعمال شدہ کاروں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی ہے۔ صرف پاکستانی تارکینِ وطن ہی کوئی استعمال شدہ گاڑی پرسنل بیگیج، گفٹ یا ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کے تحت امپورٹ کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نئی پالیسی استعمال شدہ یا امپورٹڈ کارز پر کس طرح لاگو ہوگی؟

استعمال شدہ کاروں پر ‘ٹیکس’ کی ممکنہ وضاحت

پاک ویلز سمجھتا ہے کہ صرف ایک صورت ایسی ہے جہاں FBR اس نئی پالیسی کا اطلاق کر سکتا ہے۔ یہ ہے CBU یونٹس کہ جو کار مینوفیکچرر ملک میں درآمد کرتا ہے۔ CBU یونٹس نئی کاریں ہوتی ہیں، جو بڑی کمپنیاں جیسا کہ ہونڈا اور ٹویوٹا وغیرہ نئے ماڈل کی لانچ سے پہلے امپورٹ کرتی ہیں، تاکہ لوکل رسپانس چیک کر سکیں، یا اسے لوکل مارکیٹ میں نئے اضافے کے طور پر متعارف کروا سکیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ نیا قانون کس طرح سے صرف CBUs کے لیے ہے؟ جواب ہے کہ کمپنیز کار کی امپورٹ کے وقت 17 فیصد GST ادا کرتی ہیں اور خریدار کو خریداری کے وقت 17 فیصد اضافی GST ادا کرنا پڑتا ہے، جو بلاشبہ کمپنیز کی سیلز کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اب یہ کمپنیز FBR کے پاس گئی ہوں اور کہا ہو کہ حکومت ایک ہی یونٹ پر دو مرتبہ سیلز ٹیکس لے رہی ہے، جو ٹھیک نہیں ہے۔

اس لیے ہمارے خیال میں FBR نے اس قانون میں یہ نئی شق متعارف کروائی ہے کہ جس کے مطابق خریداری 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا کرے۔ مثال کے طور پر کمپنی ایک کار 50 لاکھ روپے کی قیمت پر امپورٹ کرتی ہے۔ امپورٹ ڈیوٹیز ادا کرنے کے بعد جس میں کسٹمز اور GST شامل ہیں، اس کی قیمت 70 لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ جب کمپنی اس کار کو فروخت کرتی ہے تو اس کی قیمت تقریباً 82 لاکھ روپے ہوگی، 17 فیصد GST کی وجہ سے، جو خریدار کو ادا کرنا ہوگی، یعنی کسٹمر نے دو مرتبہ GST ادا کیا، ایک مرتبہ امپورٹ کے وقت اور دوسرا خریداری کے وقت۔

اس نئے قانون کے بعد اب کسٹمر کو صرف ایک مرتبہ 17 فیصد GST ادا کرنا ہوگا۔

ہمیں امید ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ FBR کی اس نئی پالیسی کے حوالے سے ابہام ختم ہو گیا ہوگا۔

استعمال شدہ کاروں کے ‘ٹیکس’ پر حتمی رائے

ہمارے خیال میں یہ نیا SRO مقامی آٹو مارکیٹ میں مزید کنفیوژن پھیلائے گا، جو پہلے ہی ایک مشکل  مرحلے سے گزر رہی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے تمام ابہام دُور کرتے ہوئے وضاحت کرنی چاہیے کیونکہ یہ مستحکم مارکیٹ اور تجارت کے لیے ضروری ہے۔

ہماری وضاحت کے لیے یہ وڈیو دیکھیں:

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.