سینیٹ میں پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر کڑی تنقید

0 199

مقامی طور پر بنائی جانے والی کاروں کی ضروری جانچ نہ کروانے اور سیفٹی معیارات کی کمی کی وجہ سے سینیٹ میں مقامی کار مینوفیکچررز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سیفٹی معیارات پر پورا اترنے میں ناکامی سے صارفین کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہے۔ سینیٹ نے اس حوالے سے بھی تنقید کی کہ گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں نے قیمتوں میں تو اضافہ کر دیا ہے لیکن اب بھی حفاظت کے معیارات پر پورے نہیں اترے۔ وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ غیر محفوظ گاڑیاں فراہم کرنے والے اداروں پر جرمانے کے لیے نئی پالیسیاں اور قواعد تیار کیے جا رہے ہیں۔ نئے قواعد و ضوابط کا ایک مسودہ وفاقی کابینہ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں کی گھٹتی ہوئی فروخت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معاملے پر سامنے آیا۔ 

اعظم سواتی نے کہا کہ اگر حادثے کی صورت میں ایئر بیگز جیسے فیچرز جان بچانے میں ناکام ہوئے تو گاڑیاں بنانے والے ان اداروں کو جرمانے ہوں گے۔ ایئربیگز کی ناکامی جیسے واقعات ان اداروں کو کئی ملین روپے کے پڑ سکتے ہیں۔ وزیر نے یہ بھی بتایا کہ نئی آٹو پالیسی کے تحت 18 نئے اداروں نے پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹس لگائے۔ ان 18 کمپنیوں میں چینی اور کوریائی ادارے بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، اعظم سواتی نے زور دیا کہ طلب اور رسد کے رحجانات گاڑیوں کی قیمت طے کرتے ہیں؛ اس لیے حکومت کے لیے قیمتیں متعین کرنا ممکن نہیں۔ 

نئی گاڑیوں کی پیداوار جیسے ہی طلب کی سطح کو عبور کرے گی، قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی۔ حکومت بھی پاکستان میں گاڑیاں بنانے کی مشینری درآمد کرنے کے لیے صفر ٹیکس شرح دے رہی ہے۔ ایک اور سینیٹر عتیق احمد شیخ نے بھی اس معاملے پر بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ آٹو انڈسٹری کئی کئی دن اپنے آپریشنز بند کر رہی ہے کہ جس کا پہلے سے کوئی طے شدہ اور ظاہری منصوبہ نہیں ہے۔ 

انہوں نے گاڑی کی فوری فراہمی کے لیے “اون منی” چارج کرنے کے معاملے پر بھی بات کی۔ سینیٹر نے کہا کہ مقامی ادارے بغیر کسی مناسب پڑتال کے گاڑیوں کی قیمتوں کو بڑھائے ہی جا رہے ہیں۔ 

مزید برآں، سینیٹر نعمان وزیر نے ٹریکٹروں اور مقامی طور پر بننے والی گاڑیوں کا تقابل کیا۔ مقامی طور پر بننے والے ٹریکٹر اور کاریں بہت مہنگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر بننے والی ان گاڑیوں کی سیفٹی کا اندازہ لگانے کے لیے مناسب کریش ٹیسٹ نہیں کیے جاتے۔ اس سے عوام کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں کیونکہ حادثے کی صورت میں گاڑیوں کے ایئربیگز نہیں کھلتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان گاڑیوں کو اسمبل کرنے کے لیے درکار بیشتر آٹو پارٹس درآمد کیے جا رہے ہیں۔ سینیٹر رحمٰن ملک نے اس ضمن میں معیار اور قیمت پر نظر رکھنے کے لیے اتھارٹیز کے قیام کی خواہش ظاہر کی۔

مزید خبروں اور معلوماتی مواد کے لیے پاک ویلز آتے رہیے اور اپنے رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

Join WhatsApp Channel