آٹو پارٹس وینڈرز لوکلائزیشن کی کم سطح اور مقامی آٹو مینوفیکچررز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے خوش نہیں ہیں۔ بالآخر وینڈرز نے اس معاملے پر اپنی آواز اٹھا لی ہے۔ آٹو پارٹس وینڈرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ 655(I)/2006 جیسے متعدد SROs (Statutory Regulatory Orders) اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ان سے وینڈرز اور صارفین کے بجائے مقامی اسمبلرز کو فائدہ پہنچے۔
پاکستان آٹوموٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز ایسوسی ایشن (PAAPAM) نے لوکلائزیشن کو بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 660cc سے 1800cc کی کیٹیگری میں لوکلائزیشن کی موجودہ سطح 45 سے 55 فیصد ہے، جو کم ہے۔ البتہ مقامی میڈیا ادارے کا کہنا ہے کہ مقامی اسمبلرز زیادہ لوکلائزیشن کا دعویٰ کرتے ہیں۔
شرحِ تبادلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑیوں کی قیمتیں حالیہ کچھ عرصے میں کئی بار بڑھی ہیں۔ گو کہ ڈالر پچھلے سال جون میں 164 روپے کے مقابلے میں اب 155 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب درآمد شدہ پرزوں کی لاگت میں کمی آئی ہے۔ PAAPAM کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے وزارت صنعت و پیداوار کو بھاری قیمتوں، کم لوکلائزیشن اور SROs کے غلط استعمال پر ایک خط تحریر کیا ہے۔ 15 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ PAAPAM نے مندرجہ بالا معاملات پر اعتراض اٹھائے ہیں، خاص طور پر SRO 655 پر۔ چیئرمین PAAPAM نے یہ بھی کہا کہ اگر مقامی اسمبلرز گزشہ سالوں میں پارٹس کی لوکلائزیشن کی سطح بڑھاتے تو مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں کی قیمتیں کم رکھی جا سکتی تھیں۔
چھ سال بعد متعدد SROs کی مدد سے حکومت نے چند رعایتیں دے کر لوکلائزیشن کی سطح بڑھانے کو آسان بنایا۔ ان رعایتوں میں درآمد شدہ پرزوں، ذیلی پرزوں اور ان کے لیے درکار خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کرنا شامل ہے۔ یہ SROs لوکلائزیشن کے عمل کو آسان اور باسہولت بنانے کے لیے پیش کیے گئے۔ یہ معاملہ 29 ویں آٹو انڈسٹری ڈیولپمنٹ کمیٹی (AIDC) کے روبرو بھی پیش کیا گيا۔ مقامی اسمبلرز کے نمائندوں نے زور دیا کہ وزارت صنعت اور انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) کے پاس وینڈرز اور اسمبلرز کے کاروباری فیصلوں میں مداخلت کرنےکا اختیار نہیں ہے۔
AIDC اجلاس کے دوران یہ تجویز کیا گیا تھا کہ PAAPAM اور PAMA (پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن) باہمی گفتگو کے ذریعے ان مسائل کو حل کریں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسے معاملات کو حل کرنا AIDC کی ٹیکنیکل کمیٹی کا کام ہے۔ متعدد دیگر تکنیکی پہلوؤں کو دیکھنے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔ PAAPAM کی جانب سے اٹھایا گیا ایک اور خدشہ یہ تھا کہ آٹوموٹو اسمبلنگ یونٹس (AAUs) فاضل پرزوں کی بہت بھاری قیمتوں پر درآمد کی اجازت دے رہا ہے، جس سے گاڑیاں بہت مہنگی ہو رہی ہیں۔
SROs کے تحت آٹو پارٹس مینوفیکچررز کو مالیاتی فوائد AAUs کو منتقل کرنا ہوں گے، یوں مستقبل میں نئی ٹیکنالوجی کا حصول اور ان کا آگے بڑھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مزید برآں چیئرمین PAAPAM نے یہ بھی کہا کہ SRO 655 پندرہ سال پرانا ہے۔ اسے تب سے بہتر نہیں بنایا گیا یا اس پر نظرثانی نہیں کی گئی تاکہ اسے آٹوپارٹس مینوفیکچررز کی ترقی اور مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں میں لوکلائزیشن کی سطح کو بڑھایا جا سکے۔
نمایاں لوکلائزیشن حاصل کرنے اور شرحِ تبادلہ میں کمی بیشی سے کاروں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہ ہو، اسے یقینی بنانے کے لیے آٹو پارٹس مینوفیکچررز کی بات سننے کی ضرورت ہے۔ اس کا مجموعی طور پر آٹو سیکٹر کو فائدہ پہنچے گا اور یہ تمام اسیٹک ہولڈرز کے لیے مستقبل میں فائدہ مند ہوگا۔
مزید خبروں اور معلوماتی مواد کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے اور اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔