حکومتِ پاکستان نے عوام پر ایک اور بڑا پٹرول بم پھینک دیا جب اس نے مئی 2019ء کے آغاز پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 9.42 روپے فی لیٹر تک کے اضافے کا اعلان کیا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کے سپرد کیا گیا تھا جس کی قیادت ڈاکٹر حفیظ شیخ کر رہے تھے۔ کمیٹی نے 3 مئی کو حتمی فیصلے میں پٹرول کی قیمت میں 9.42 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 7.46 روپے، لائٹ-اسپیڈ ڈیزل میں 6.40 اور ہائی-اسپیڈ ڈیزل پر 4.89 روپے کا اضافہ کردیا۔ واضح رہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (OGRA) نے اس سے پہلے پٹرول کی قیمت میں 14 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ تجویز کیا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا اضافہ ہے۔ حکومت کے دعوے کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس نے انہیں اس اضافے پر مجبور کیا۔ لیکن کیا یہی واحد وجہ ہے؟ بالکل نہیں!
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اضافی ٹیکس نافذ کیے ہیں جو قیمت میں اضافے کا سبب بنے۔ حکومت صرف مئی 2019ء میں پٹرولیم مصنوعات کی فروخت سے ہی تقریباً 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔ جنرل سیلز ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی اور پٹرولیم لیوی کے تحت پٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر تقریباً 40 روپے فی لیٹر لیے جا رہے ہیں۔ درحقیقت، حکومت عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے لحاظ سے ڈیزل پر 4 روپے فی لیٹر اب بھی کم کر سکتی تھی۔ فائنانس ڈویژن پٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر اضافی پٹرولیم لیوی بھی لاگو کی۔ پٹرولیم لیوی کی آسمان کی چھوتی ہوئی سطح عوام کو سخت دباؤ میں لائے گی کیونکہ افراطِ زر تقریباً تمام مارکیٹ میں بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
براہ راست فروخت اور بذریعہ ریٹیل آؤٹ لیٹ فروخت پر پٹرولیم لیوی بالترتیب 17.62 روپے فی لیٹر اور 14.5 روپے فی لیٹر ہے۔ دوسری جانب ہائی-اسپیڈ ڈیزل پر براہ راست اور ریٹیل فروخت پر 5.98 روپے فی لیٹر اور لائٹ -اسپیڈ ڈیزل کی فروخت پر 2.58 روپے فی لیٹر لیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا مئی 2019ء کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت پر زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ نئے ریٹس کچھ یوں ہیں:
پٹرول: 108.31 روپے فی لیٹر
ہائی-اسپیڈ ڈیزل: 122.32 روپے فی لیٹر
لائٹ -اسپیڈ ڈیزل: 86.94 روپے فی لیٹر
مٹی کا تیل: 96.77 روپے فی لیٹر
حکومت کی جانب سے لگایا گیا اضافی ٹیکس عوام کے لیے بالکل اچھی علامت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ موجودہ صورت حال میں نہ صرف یہ بوجھ جانبدارانہ طور پر عوام پر منتقل کیا گیا، بلکہ یہ پاکستان میں آٹوموبائل انڈسٹری کو بھی متاثر کر رہا ہے کہ جہاں گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور قوتِ خرید گھٹنے سے گاڑیوں کی فروخت میں کمی آ رہی ہے۔ یہ مقامی صنعت کے لیے ایک اچھا شگون نہیں ہے کہ جو چند نئے اداروں کی آمد کے بعد آگے کی منزلوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
اپنی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔ گاڑیوں کے حوالے سے خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔