دنیا بھر میں گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ صرف امریکی او یوپی ممالک کی بات کریں تو وہاں ہر سال ہزاروں گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ تاہم ان ممالک میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا طریقہ کار پیچیدہ اور شفاف ہونے کے باعث چوری شدہ گاڑیاں باآسانی سڑکوں پر نہیں آ پاتیں۔ اس لیے کار چور ان گاڑیوں کے پرزے نکال کر فروخت کر ڈالتے ہیں اور باقی بچ جانے والا ڈھانچا کباڑ خانے کی زینت بن جاتا ہے۔
اس کے علاوہ گاڑیوں کی چوری ملوث انتہائی تجربکار گروہ بھی خاصے سرگرم ہیں۔ ان کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور یہ قدرے مختلف انداز سے کام کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے گاڑی چوری کرو، خاص کر مہنگی اور پرتعیش سواریاں، اور انہیں کنٹینر میں بند کر کے بذریعہ بحری جہاز بیرون ملک روانہ کردو جہاں اسے باآسانی فروخت کیا جاسکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے سرحد کے دونوں جانب گروہ باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی خاص ماڈل یا گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد نے اس نیٹ ورک کے کسی رکن سے گاڑی منگوائی اور انہوں نے دوسرے ملک میں ایسی ہی گاڑی کو تاک کر اڑا لیا اور خوہشمند کو من مانی قیمت پر فروخت کردیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک کی پولیس بندرگاہوں پر ایسے کنٹینر پکڑتی ہیں جن میں لاکھوں ڈالر مالیت کی گاڑیوں کو چھپایا جاتا ہے۔
گاڑیوں کی چوری کے علاوہ امریکا اور یورپ میں ایک اور بڑا مسئلہ بیمہ میں دھوکا دہی کا بھی ہے۔ اس معاملے میں کوئی اور نہیں بلکہ خود گاڑی کا مالک ہی ملوث ہوتا ہے۔ ایسا وہ مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ بعض اوقات گاڑٰوں کے مالکان گاڑی کی قیمت بینک کو ادا نہ کرپاتے۔ اگر ان کی گاڑی لیز یا قسطوں پر ہو اور وہ اپنی اقتصادی ساکھ کو خراب نہیں کرنا چاہتے اور اپنے قرضے سے باہر آنا چاہتے ہیں تو حادثے کا ڈرامہ رچا کر گاڑی کو بذات خود نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ یا پھر گاڑی کو کسی نامعلوم خفیہ جگہ چھپا کر، نظر آتش کر کے حتی کہ دریا یا ندی میں پھینکنے جیسے کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
کئی مرتبہ بیمہ کا دعوی کرنے والے جعلی حادثے کا بہانہ بنا کر پیسے بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں گاڑی چوری ہوجانے کی جعلی خبریں بھی گھڑ لی جاتی ہیں۔ ایسے میں بیمہ کرنے والے ادارے کو گاڑی کی موجودہ قیمت کے مساوی رقم مالک کو دینا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیمہ کرنے والے اداروں نے من گھڑے واقعات کی تحقیقات کے لیے باقاعدہ ایک محکمہ بنا رکھا ہے جو ہر دعوی دار کی بیمہ کی درخواست پر واقعے کی جانچ پڑتال انجام دیتی ہیں اور واقعے کی سچائی جاننے کے بعد ہی بینک کے ذریعے صارف کو ادائیگی کی جاتی ہے۔
اب سے چند روز قبل اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبررا میں ایک گاڑی کے چوری ہوجانے کی خبریں کافی گرم رہیں۔ 34 سالہ شخص، جس کا نام اور پہچان خفیہ رکھی گئی ہے، نے مئی 2017ء میں اطلاع دی کے اس کے گھر میں چور گھس آئے اور اس کی بینٹلی لے کر فرار ہوگئے۔ خبر میں اس حوالے سے نہیں بتایا گیا کہ بینٹلی کا کون سا ماڈل ہے البتہ پولیس کے مطابق گاڑی کی قیمت 55 ہزار پاؤنڈ سے بھی زائد تھی۔
پولیس نے فوری طور پر گاڑی کی تلاش شروع کردی۔ اب اسکاٹ لینڈ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ پانچ ماہ کی طویل اور تھکادینے والی تحقیقات کے نتیجے میں انہیں بینٹلی کا پتہ چل گیا ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چوری ہوجانے والی بینٹلی پاکستان میں پائی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق گاڑی کو بند کنٹینر میں لندن سے پاکستان بھیجا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ گاڑی دراصل چوری نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے مالک نے خود اسے پاکستان بھیجا تھا۔
پولیس کو گاڑی چوری ہوجانے کی اطلاع 22 مئی 2017ء کو دی گئی جبکہ یہ گاڑی 26 مئی کو پاکستان پہنچی۔ اس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ گاڑی کا حامل کنٹینر 2 مئی کو لندن سے روانہ ہوچکا تھا۔ محکمہ پولیس نے اپنی مصدقہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ
ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ
“یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ گاڑی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کا شکار نہیں ہوئی”
گاڑی کی گمشدگی کو چوری کا روپ دینے والے فرد کے خلاف دھوکا دہی اور پولیس کا وقت ضائع کرنے کی پاداش میں شکایت درج کرلی گئی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کا نام ایک مرتبہ پھر انتہائی منفی واقعے میں سامنے آیا ہے جو ملک کے لیے شدید بدنامی کا باعث بنا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مذکورہ بینٹلی درحقیقت اس وقت کہاں ہے تاہم اسکاٹ لینڈ پولیس کے مطابق یہ بینٹلی کراچی کی بندرگاہ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد یہ گاڑی کراچی سے آگے کہاں گئی؟ اس سوال کا جواب کسی کو معلوم نہیں۔

پاکستان میں بینٹلی کی بہت زیادہ گاڑیاں موجود نہیں ہے اور گاڑیوں کے شوقین پاکستانی افراد اور خریدار باآسانی کسی بھی بھیڑ میں بینٹلی کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس خبر نے بینٹلی خریدنے والے ہر فرد کو شک میں مبتلا کردیا ہے اور اب یہاں بینٹلی پر نظر پڑتے ہی ہر فرد کا ذہن اسی گاڑی کی طرف جائے گا جس کی تلاش اسکاٹ لینڈ کی پولیس کر رہی ہے۔
آپ کے خیال میں اس بینٹلی کو کہاں اور کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟ اپنی رائے سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیے۔