آٹوموبائل شعبے کے مسابقتی مسائل پر CCP کی کھلی سماعت مکمل
ملک میں آٹو موبائل کی صنعت اور صارفین کو درپیش مسائل کے حوالے سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے آج اسلام آباد میں ایک کھلی سماعت کا انعقاد کیا۔ جس میں گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں سے لے کر پرزہ جات بنانے والے اور استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمد کنندگان تک آٹو موبائل کی صنعت کے تمام کردار اپنے خدشات کے اظہار کے لیے موجود تھے۔ کیونکہ یہ ایک کھلی سماعت تھی اس لیے صارفین کی بڑی تعداد بھی پاک ویلز کے ساتھ موجود تھی۔
اجلاس کی قیادت ودیعہ خلیل چیئرپرسن سی سی پی، ڈاکٹر محمد سلیم رکن سی سی پی اور شہزاد انصر رکن سی سی پی نے کی۔
اس کے علاوہ ایف بی آر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ اور انجینیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے حکومتی نمائندگان بھی سی سی پی کی جانب سے طلب کیے گئے تھے تاکہ وہ صارفین کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب دیں اور مختلف پہلوؤں پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرپرسن سی سی پی نے شرکاء کو بتایا کہ سی سی پی اداروں کے درمیان صحت مند مسابقت قائم کرنے اور صارفین کے سوالات سے نمٹنے کے لیے کام کرتا ہے۔ قیمتیں بڑھانے کے لیے گٹھ جوڑ قائم کرنے (Cartels) اور تجارتی استحصال (Trade Abuse) کے لیے CCP میں ڈائریکٹر جنرل محترمہ شائستہ بانو نے زور دیا کہ CCP ملک میں کسی بھی ادارے کو بے لگام انداز میں غلبہ حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
سی ای او ٹویوٹا انڈس موٹرز جناب علی اصغر جمالی نے پاما (پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن) کی نمائندگی کی اور موقع پر موجود صارفین کے سوالات کے جوابات دیے۔ ایک سوال کے جواب میں جمالی صاحب نے کہا کہ وہ مارکیٹ میں پریمیئم کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں؛ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ پریمیئم کے خلاف مناسب اقدامات اٹھانے پر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔
جمالی صاحب نے مزید کہا کہ ہم نے اپنی متعدد کاروں کی بکنگز منسوخ کیں اور پریمیئم سے نمٹنے کے لیے اپنی دو ڈیلرشپس کا بھی خاتمہ کیا۔
دوسری جانب استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں نے حکومت کے SR0 1067 پر تنقید کا نشانہ بنایا جو گزشتہ سال اکتوبر میں جاری کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ انہیں کچھ سہولت دے کیونکہ وہ سرکار کی آمدنی میں دوسرا سب سے زیادہ حصہ دینے والے ہیں۔ بہرحال، قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت نے نفاذ کے کچھ ہی عرصہ بعد SRO 1067 کو منسوخ کردیا تھا۔
کئی صارفین نے گاڑیاں بنانے والے اداروں کی جانب سے قیمتوں میں اچانک اضافے کی طرف اشارہ کیا جسے CCP نے درج کرلیا۔
عامر اللہ والا اور جاوید شیخ نے کھلی سماعت میں PAAPAM کی نمائندگی کی اور گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والوں کا مقدمہ پیش کیا۔ جناب اللہ والا نے کہا کہ پرزہ جات بنانے والے اب مستحکم ہیں اور مقامی اداروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تندہی سے کام کر رہے ہیں۔
FBR، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ اور EDB کے مندرجہ بالا عہدیداران نے زور دیا کہ وہ تمام فریقین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں، استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے والوں اور صارفین کے لیے۔ مزید برآں جناب عاصم ایاز، ڈپٹی مینیجر جنرل EDB نے کہا کہ پاکستان میں کئی نئے ادارے داخل ہو رہے ہیں اور گاڑیوں کی طلب و رسد کے درمیان موجود خلا آنے والے سالوں میں کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ مزید برآں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہو سکتا ہے فورڈ بھی پاکستان میں قدم رکھے۔
سنیل سرفراز منج چیئرمین پاک ویلز ڈاٹ کام بھی صارفین اور مقامی آٹو انڈسٹری کی نمائندگی کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے اتھارٹی کو صارفین اور مقامی آٹو انڈسٹری کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور کئی سلگتے ہوئے مسائل کے حل بھی پیش کیے۔
CCP کی جانب سے اجلاس کا انعقاد ایک مستحسن قدم تھا، اور اتھارٹی کو مناسب وقفوں کے ساتھ ایسی سرگرمیاں کا لازمی انعقاد کرنا چاہیے تاکہ محض صارفین کے ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر صنعت کو درپیش مسائل سے بھی باخبر رہا جا سکے۔