ایس آر او 1067 (I)/2017 کیا ہے؟ اصل بات جانیے!

0 222

پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے پوری قابلیت سے کام کرنے کے باوجود صارفین اور مارکیٹ کی مانگ پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار صارفین بیرون ملک سے درآمد شدہ گاڑیاں خرید رہے ہیں جو سہولیات اور خصوصیات میں بہتر ہونے کے ساتھ قیمت میں بھی مناسب ہیں۔ فی الوقت استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان منگوانے کے لیے تین طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔

1۔ بطور ذاتی سامان (Personal Baggage Scheme)

2۔ بطور تحفے (Gift Scheme)

3۔ رہائش کی منتقلی (Transfer of Residence)

ذاتی سامان اور رہائش کی منتقلی کے ساتھ گاڑی پاکستان میں گاڑی درآمد کرنے کی سہولت بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کے لیے ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عام طور پر ان اسکیموں کی تحت گاڑیوں کی درآمد کو ڈیوٹی سے مستثنی سمجھا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مذکورہ اسکیموں کے تحت گاڑی ساتھ لانے یا پاکستان منگوانے پر ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ بیرون رہنے والا کوئی بھی پاکستان اپنے ملک گاڑی بطور تحفہ بھیج اور وصول کر سکتا ہے۔ البتہ گاڑی وصول کرنے والے فرد کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا ہوگی۔ اس اسکیم کی چند شرائط درج ذیل ہیں:

  • ایک فرد دو سال میں ایک دفعہ اس اسکیم کو استعمال کرسکتا ہے
  • تین سال سے زیادہ پرانی گاڑی قبول نہیں کی جائے گی
  • درآمد کنندہ پاکستان کا بیرون ملک قیام: رہائش کی منتقلی اور بطور تحفہ گاڑی بھیجنے کے لیے پاکستانی فرد کم از کم 700 یوم تک بیرون ملک مقیم رہا ہو اور درخواست کی تاریخ کو تین سال سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو۔ جبکہ ذاتی سامان کے ساتھ گاڑی لانے کے لیے کم از کم 180 روز بیرون پاکستان قیام ضروری ہے نیز درخواست کی تاریخ کے وقت سات ماہ سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو۔

ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ

بہت سے لوگوں نے ان اسکیموں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے غلط استعمال بھی کیا ہے۔ لوگ “ہنڈی” کے ذریعے بیرون ملک رشتے داروں کو پیسے بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاسپورٹ کے ذریعے ملک میں گاڑی درآمد کرسکیں۔ اس سے مجموعی معیشت پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سادے الفاظ میں کہا جائے تو ہنڈی جیسے ناجائز طریقے سے پیسے بھیجنے اور وصول کرنے کے باعث روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی برآمدات ملکی درآمدات سے بہت کم ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ برآمدات میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے، روپے کی قدر بہتر بنانے اور گاڑیوں سے متعلق اسکیموں کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان نے IPO-2016 میں ترمیم کرتے ہوئے 20 اکتوبر 2017 کو نیا SRO1067 (I)/2017 جاری کیا ہے۔

IPO-2017 کے ضمیمہ ھ (جو کہ نجی سامان، رہائش کی منتقلی اور بطور تحفہ گاڑی درآمد کرنے کا طریقہ ہے) کے پیراگراف (3) کے ذیلی پیرگراف (5) ترمیم کے بعد یہ ہوگیا ہے:

نجی سامان یا تحفے کے طور پر درآمد کی جانے والی تمام نئی/پرانی گاڑیاں کی ڈیوٹی اور ٹیکسز پاکستانی شہری کو خود غیر ملکی زر مبادلہ کو ادا کرنا ہوں گے یا پھر مقامی شخص کو بینک انکیشمنٹ سرٹیفیکیٹ دکھانا ہوگا جس سے غیر ملکی ترسیلات کی مقامی روپے میں منتقلی ظاہر ہو۔ سادے لفظوں میں کہا جائے تو درآمد شدہ گاڑی کی ڈیوٹی بھی بیرون ملک سے ہی جمع کروائی جائے گی اور اس کی تفصیلات گاڑی کی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے فراہم بھی فراہم کرنا ہوں گی۔

حکومت کی جانب سے یہ اقدام غیر ملکی زرمبادلہ کی بیرون ملک منقلی کی حوصلہ شکنی کرنا ہے کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو روپے کی قدر مزید گرتی چلی جائے گی اور برآمدات میں بھی گراوٹ دیکھنے کو ملے گی۔ اس کے علاوہ حالیہ ترمیم نے ان اسکیموں کے ناجائز استعمال کو بھی پہلے سے زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سے بیرون ملک سے سرمائے کی آمد میں اضافہ ہوگا۔ میری ذاتی رائے میں یہ حکومت کی جانب سے کیا جانے والا بروقت فیصلہ ہے۔ تاہم صارف کے نکتہ نظر سے یہ اچھی حکمت عملی نہیں کیوں کہ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے مقامی صارفین کی مانگ پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کی درآمد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ البتہ نئے ایس آر او کے بعد گاڑیاں درآمد کرنے کا عمل پہلے سے زیادہ مہنگا اور پیچیدہ ہو جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ درآمد شدہ گاڑٰیاں خریدنے میں دلچسپی رکھنے والوں کا ردعمل کیسا رہے گا؟ اس ضمن میں ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.