کمپنیوں کے تحفظات کے باوجود الیکٹرک وہیکل پالیسی پر عمل درآمد ہوگا

1 160

وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ اِس وقت ملک میں گاڑیاں بنانے والے اداروں کے تحفظات کے باوجود الیکٹرک وہیکل پالیسی کا اطلاق شیڈول کے مطابق ہوگا۔ 

تفصیلات کے مطابق مقامی آٹو سیکٹر نے EV پالیسی کی منظوری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ پالیسی تشکیل دیتے ہوئے ان کی رائے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ موجودہ صورت حال کو وزیر اعظم کے مشیر ملک امین اسلم نے واضح کیا ہے کہ جن کا کہنا تھا کہ موجودہ آٹو مینوفیکچررز اور آٹو پارٹس بنانے والوں کو EV پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پہلے سے کام کرنے والے ادارے نئے آنے والے آٹو مینوفیکچررز سے کافی آگے ہیں کیونکہ اُن کے مینوفیکچرنگ پلانٹس پہلے سے موجود ہیں۔ اُن کے مطابق EV پالیسی ملک کی پوری آٹو انڈسٹری کی الیکٹرک میں منتقلی اور ماحول پر مضر اثرات کم کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کے پاس EV پالیسی متعارف کروانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ جو ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کا خیر مقدم کرے گی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحول بدتر ہوتا جا رہا ہے اور اس پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے خاتمے کے لیے الیکٹرک کی جانب منتقلی ناگزیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت پہلے ہی اپنے ماحول کو بچانے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا رُخ کر چکی ہے۔ دنیا میں صرف 20 فیصد آلودگی گاڑیوں کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن پاکستان میں یہ شرح 40 فیصد ہے یعنی تقریباً آدھی آلودگی گاڑیوں سے نکلنے والے کاربن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ 

امین اسلم نے واضح کیا کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ پہلے ہی EV پالیسی منظور کر چکی ہے۔ 

البتہ تمام پرانی اور نئی آٹو کمپنیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک روڈ میپ کی تیاری پر اتفاق کریں کہ جو حکومت کو 2030ء تک 30 فیصد گاڑیوں کی الیکٹرک میں منتقلی کا ہدف حاصل کرنے میں مدد دے۔ 

حکومت EV پالیسی میں مختلف رعایتیں دے رہی ہے اور جلد ہی ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں مدد کے لیے ایک بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے گی۔ جہاں تک پاکستان میں EVs کے لیے بیٹریاں تیار کرنے کی بات ہے تو چین کے ساتھ ٹیکنالوجی منتقلی کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اگر پاکستان الیکٹرک گاڑیوں کے لیے اپنی بیٹریاں تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ مقامی انڈسٹری کے لیے بڑی بات ہوگی۔ 

بیٹریوں کی پیداوار کے معاملے میں متعدد آپشنز موجود ہیں جیسا کہ swappable اور شمسی توانائی سے چلنے والی بیٹریاں۔ حکومت ہر ایک کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے اور منصوبے کے مطابق اُن پر کام کرے گی۔ پاکستان میں طویل میعاد کے لیے EV صنعت کے قیام کے لیے اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے۔ رائٹ ہینڈ ڈرائیو (RHD) الیکٹرک کاروں کے لیے برآمدی مارکیٹ کی تیاری بھی زیرِ غور ہے اور پاکستان اس سلسلے میں چین کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ 

وزیر اعظم کے مشیر نے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی لوکلائزیشن پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بننے والی روایتی انجن کی گاڑیاں کبھی لوکلائزیشن کی اچھی سطح تک نہیں پہنچ سکتیں کیونکہ اُن کے 50 فیصد سے زیادہ پرزے اور پرزوں کی مقامی طور پر تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال دونوں درآمد کیے جاتے ہیں۔ یوں جب بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی شرح گرتی ہے تو گاڑیوں کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں لوکل مارکیٹ کو مقابلے کی دوڑ میں برقرار رکھنے کے لیے لوکلائزیشن کی سطح بڑھانے کو اپنا ہدف بنانا ہوگا۔ 

الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال نہ صرف طویل المیعاد میں آلودگی میں کمی لائے گا بلکہ ملک کے درآمدی بل کی کٹوتی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا کہ جو اِس وقت تقریباً 2 ارب ڈالرز ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں صارفین کو بھی طویل بنیادوں پر پیسے بچانے میں مدد دیں گی۔ EVs کا سڑکوں پر نظر آنا اب زیادہ دُور کی بات نہیں کیونکہ حکومت EV پالیسی نافذ کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کو متعارف کروانے کے لیے تیار ہے۔ موٹر سائیکلیں ملک میں بہت بڑی مارکیٹ رکھتی ہیں اور حکومت روایتی انجن رکھنے والی ان گاڑیوں کی الیکٹرک میں منتقلی کا ہدف رکھتی ہے۔ 

دیکھتے ہیں کہ EV پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے حکومت کی کوششیں کیا ثمر لاتی ہیں؟ بلاشبہ ماحولیات کے تحفظ اور اس کے نتیجے میں عالمی حِدت اور بڑھتی ہوئی آلودگی سے بچانے کے لیے یہ ایک زبردست منصوبہ ہے۔ لیکن اگر حکومت 2030ء تک 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک پر منتقل کرنے کا ہدف رکھتی ہے تو اسے موجودہ آٹو مینوفیکچررز کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اپنی رائے نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور پاکستان کی EV پالیسی کے حوالے سے مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.