جنرل ٹائر نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو ایک خط بھیجا ہے کہ جس میں بین الاقوامی سرحدوں کے ذریعے ٹائروں کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط کی تفصیلات کے مطابق CEO جنرل ٹائر حسین قلی حان نے کہا کہ غیر قانونی تجارت کی وجہ سے لوگ روزگار کھو رہے ہیں، غیر ملکی زرِ مبادلہ کم ہو رہا ہے، مقامی صنعت کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور یہی کچھ ٹائر صنعت کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
اسمگلنگ مقامی ٹائر صنعت کی جڑیں کھود رہی ہے، جس کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی جاہیے۔ PakWheels.com سے بات کرتے ہوئے کمپنی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ انہوں نے حکومت اور متعلقہ اداروں کو ٹائروں کی اسمگلنگ کے مقامی صنعت پر پڑنے والے اثرات اور اس سلسلے میں مدد حاصل کرنے کے لیے اُن سے رابطہ کیا ہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ہمیں یقین اور امید ہے کہ یہ حکومت اس ضمن میں کچھ کرے گی، انہوں نے مزید کہا۔
ایک صنعتی شعبے نے حکومت کو تجویز کیا کہ وہ اسمگلنگ کا رحجان رکھنے والی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی (RD) ختم کردے، البتہ جنرل ٹائر کے CEOنے کہا کہ یہ حل نہیں ہے کیونکہ ” گزشتہ سال درآمدات کو کم کرکے زرِ مبادلہ کو محفوظ کرنے کے لیے RD کے نفاذ نے ٹائروں کی برآمدات کو کم کیا لیکن بہت زیادہ نہیں۔”
ذیل میں پاکستان ریونیو آٹومویشن لمیٹڈ PRAL/CARE کی جانب سے حاصل کردہ ڈیٹا ہے:
یہ ظاہر کرتا ہے کہ RD کے نفاذ کے بعد درآمد شدہ ٹائروں میں صرف اوسطاً 11 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اسمگلنگ ٹائروں کی طلب کا 52 فیصد پورا کرتی ہے۔ اگر ہم نافذ شدہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے 11 فیصد نکال دیں تو باقی 41 فیصد اب بھی اسمگل ہو رہے ہیں RD کے نفاذ کے باوجود۔ اسمگلنگ کو روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ 41 فیصد اتنی بڑی تعداد ہے کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا۔
FBR کو بھیجے گئے خط اس طرف بھی اشارہ کیا کہ چین سے ٹائروں کی درآمد پر صفر ڈیوٹی کے باوجود ٹرک بس ریڈیل (TBR) ٹائر اب بھی چین سے اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کو اس جانب دیکھنا چاہیے، CEO نے مطالبہ کیا۔
حکومت کو ایسی اچھی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں کہ ملک کی اپنی ٹائر مینوفیکچرنگ بیس ترقی کرے اور درآمد شدہ ٹائروں پر انحصار کم ہو۔ اس حوالے سے جنرل ٹائر نے اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے FBR کو چند تجاویز دی ہیں۔
FBR یقینی بنائے کہ بغیر دستاویزات کے کوئی ٹائر مارکیٹ میں فروخت نہ ہو۔ FBR مارکیٹوں پر چھاپے مارے اور ایسے ٹائر ضبط کرلے کہ جن کے کاغذات ڈیلرز پیش نہ کر سکے۔ اسمگلروں کے لیے کمرشل مراکز میں ایسے ٹائر کھلے عام فروخت کرنا آسان نہیں ہونا چاہیے۔
حکومتِ پاکستان کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسمگل شدہ ٹائرز چمن اور لنڈی کوتل کی بارڈر چیک پوسٹس کے ذریعے نہ آ سکیں۔
حکومتِ پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) کے ذریعے درآمد ہونے والی اشیاء کےاعداد و شمار کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور دیکھے کہ درآمد شدہ ٹائروں کی تعداد افغانستان میں موجود گاڑیوں کے مطابق ہے۔ ATT کے روپ میں درآمد ہونے والی اشیاء یا تو کراچی میں اتاری جاتی ہیں یا افغان سرحد سے بذریعہ اسمگلنگ واپس آ جاتی ہیں۔ اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور کسٹمز کے محکمے کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سہولت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
ہماری طرف سے اتنا ہی، اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔