برقی گاڑیاں تیار کرنے والے 5 باصلاحیت چینی ادارے
ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 200 چینی ادارے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہیونڈائی موٹرز (Hyundai) کے ڈائریکیٹر بیونگ آہن نے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین سے متعلق بات کرتے ہوئے کی۔ بیونگ برقی گاڑیوں کے شعبے میں چینی کار ساز اداروں سے مسابقت کے چیلنج پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے پاس تقریباً 200 برقی کار ساز ادار ہیں جو بہت سنجیدگی سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔
چین میں برقی گاڑیوں کی تیاری پر اضافی توجہ کے پیچھے دراصل ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا مقصد بھی کارفرما ہے۔ گزشتہ سال 4 ستمبر 2015 کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کو 70 سال مکمل ہونے پر چین میں ایک بڑی فوجی پریڈ منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تو دارالحکومت میں شدید دھند اور گرد آلود ہوا کے باعث ایسا ممکن نظر نہ آتا تھا۔ فوجی پریڈ کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے چین نے تقریباً 25 لاکھ رجسٹر گاڑیوں کے بیجنگ میں داخلے پر پابندی عائد کی اور گرد و نواح میں موجود 12 ہزار کارخانوں کو بھی بند کیا۔ 20 اگست سے 3 ستمبر تک جاری رہنے والی اس پابندی کے باعث بیجنگ کے شہریوں کو طویل عرصے بعد نیلا آسمان دیکھنے کا موقع ملا۔
چین میں حد سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کو مختلف مواقع پر آلودگی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے پیغامات بھیجتے رہے ہیں۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلاشبہ چین کو ایسی گاڑیوں کی ضرورت ہے جو ماحول دوست ہوں۔ موجودہ حالات میں اس مسئلہ کا سب سے موثر حل برقی گاڑیوں کی صورت میں نکالا جاسکتا ہے۔ گو کہ بہت سے مغربی ممالک میں بجلی یا ہائیڈروجن سے چلنے والی کافی گاڑیاں منظر عام پر آچکی ہیں تاہم ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ چین سمیت دیگر ممالک کو ایسی گاڑیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے جنہیں اوسط طبقے کی اکثریت بھی خرید سکے۔ اس کے علاوہ چین گاڑیوں کے شعبے میں دیگر ممالک کے ہم سر رہنے کے لیے بھی متبادل ایندھن سے چلنے والی سواریوں پر کام کر رہا ہے۔ امریکی (شیورلیٹ اور ٹیسلا)، یورپی (مرسڈیز-بینز) اور جاپانی (نسان اور ٹویوٹا) اس ضمن میں پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جن چینی اداروں نے برقی گاڑیوں کے شعبے میں دیگر بین الاقوامی اداروں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے پانچ قابل ذکر نام یہ ہیں۔
کرما آٹوموٹیو
سال 2007 میں فسکر آٹوموٹیو کی بنیاد رکھی گئی۔ اس امریکی ادارے نے ‘کرما’ نام سے ایک گاڑی متعارف کروائی جو غیر معیاری ہونے کے باعث بہت بری طرح ناکام ہوئی۔ فسکر اس گاڑی کی ناکامی نہ سہہ سکا اور بالآخر سال 2013 میں دیوالیہ ہوگیا۔ 2014 میں امریکی ادارے کو چینی کمپنی وینژیانگ گروپ کارپوریشن نے خرید لیا۔ یوں وینژیانگ کے پاس ایک ایسے ادارے کی چابی آگئی کہ جو برقی گاڑیاں بنانے کا تجربہ رکھتی تھی۔ چونکہ چینی ادارہ بیٹری بنانے والے ادارے A123 کا بھی مالک ہے لہٰذا انہیں برقی گاڑیوں کی تیاری میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کیوں کہ اب ان کے پاس گاڑی اور بیٹری دونوں ہی چیزیں باآسانی دستیاب ہیں۔
نیشنل الیکٹرک وہیکل سویڈن (NEVS)
یہ چینی اور جاپانی سرمایہ کاروں کا مشترکہ منصوبہ تھا کہ جس میں انہوں نے اسپائے کار کی ایک برانڈ ‘Saab’ خرید کر اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے شروع کیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جاپانی سرمایہ کاروں نے اس منصوبے سے خود کو الگ کرلیا اور یوں اس کا تمام تر اختیار چینی ادارے نیشنل ماڈرن اینرجی ہولڈنگز کے ہاتھ میں آگیا۔ ابتدا میں چینی ادارہ سویڈش برانڈ کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلوانے کے لیے کافی پرعزم تھا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ ایسا کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ اس منصوبے کو ناکام ہونا تھا سو ہوا لیکن NVES نے اتنا سرمایہ محفوظ کرلیا کہ جو اس کے بقا کے لیے ضروری تھا۔ پھر برقی گاڑیوں کے رجحان میں اضافے کو دیکھتے ہوئے NVES نے بھی خود کو برقی گاڑیوں کی تیاری پر وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ یہ مشترکہ منصوبہ Saab میں نئی روح نہیں پھونک سکا تاہم اپنی برقی گاڑیاں پیش کرنے کے لیے انتھک محنت جاری رکھے ہوئے ہے۔
فیراڈے فیوچر
چینی اداروں میں سب سے ممتاز فیراڈے فیوچر ہے۔ اسے ٹیسلا کا سب سے بڑا چینی مدمقابل سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ جیا یوتنگ ہیں جنہیں چینی ایلون مُسک بھی کہہ سکتے ہیں۔ جیا یوتنگ نے چین میں Letv اور LeEco کی بنیاد رکھ کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ فیراڈے فیوچر کا نام رواں سال لاس ویگاس میں ہونے والے کنزیومر الیکٹرانکس شو 2016 میں ابھرا کہ جب انہوں نے FFZERO1 نام سے برقی سُپر کار کا ایک تصور پیش کیا۔فیراڈے امریکی ریاست نیواڈا میں اربوں ڈالر مالیت سے ایک کارخانہ بھی قائم کر رہا ہے۔ ٹیسلا کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے ایلون مُسک کی کوششیں دیکھتے ہوئے ہم امید کرسکتے ہیں کہ جیا یوتنگ بھی قابل ذکر کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔
اتیوا
سال 2007 میں قائم ہونے والا اتیوا (Atieva) دراصل بیجنگ آٹوموٹیو انڈسٹری کارپوریشن (BAIC) ہی کا ادارہ ہے۔ شروعات میں یہ ادارہ صرف برقی گاڑیوں کے پرزے تیار کرتا تھا تاہم بعد ازاں اسے مزید وسعت دیتے ہوئے کیلی فورنیا میں ایک نیا کارخانہ قائم کیا گیا اور اب یہ اپنی برقی گاڑی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حال ہی میں ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ فیراڈے فیوچر مستقبل قریب میں اتیوا کو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گو کہ اتیوا کو گاڑی ڈیزائن کرنے میں قدرے مشکلات کا سامنا ہے تاہم اس کی سب سے بڑی طاقت بیٹریز بنانے کی صلاحیت ہے جن کے بغیر برقی گاڑی کا تصور ناممکن ہے۔ تو اگر فیراڈے کی جانب سے اتیوا کی خریداری میں دلچسپی سے متعلق خبریں سچ ثابت ہوتی ہیں تو کار ساز ادارے اور بیٹری تیار کرنے والی کمپنی کا اتحاد متحد ہوکر برقی گاڑیاں تیار کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
BYD آٹو
یہ BYD کمپنی کا ذیلی ادارہ ہے جو چین میں گاڑیوں کی تیاری کا معتبر نام سمجھا جاتا ہے۔ BYD کمپنی کو سال 2002 میں سن چوان آٹو موبائل کمپنی نے خرید لیا تھا۔ پھر آئندہ سال 2003 میں BYD آٹو کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا کاروباری خیال نہیں بلکہ ایک مکمل کار ساز ادارہ ہے۔ BYD کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف برقی گاڑیاں بناتا ہے بلکہ عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے بجلی سے چلنے والی بڑی بسیں بھی تخلیق کرتا ہے۔ اس وقت BYD آٹوز کی برقی بسیں امریکی سرزمین پر رواں دواں ہیں جہاں ریاست کیلی فورنیا میں ان کا ایک دفتر بھی موجود ہے۔
پاکستان کے منظرنامہ پر نظر ڈالیں تو علم ہوگا کہ برقی گاڑیاں تو ایک طرف یہاں بجلی سے چلنے والی معمولی اور بنیادی چیزوں تک کو توانائی فراہم کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ جلد یا بدیر پڑوسی ممالک بالخصوص چین میں ہونے والی ترقی کے کچھ اثرات ہم پر بھی پڑنا شروع ہوجائیں گے۔