ملک میں اقتصادی زوال اور سرمایہ کاری میں بے یقینی کی کیفیت بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے گندھارا نسان لمیٹڈ پاکستان میں ڈاٹسن کاریں اسمبل کرنے کے منصوبوں پر ازسرِ نو غور کر رہا ہے بلکہ مبینہ طور پر کمپنی نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔
آٹو مینوفیکچرر کو ملک میں ڈاٹسن کاریں متعارف کروانے سے پہلے ہی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ گندھارا نسان اگلے چار سالوں کے دوران مقامی انڈسٹری میں 6.5 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے لیے مکمل طور پر تیار تھا لیکن اب خدشہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق آٹو مینوفیکچرر جولائی 2020ء سے ملک میں 1200cc کی ڈاٹسن کراس بنانے کا منصوبہ رکھتا تھا جبکہ سال کے اختتام تک 1200cc کی ڈاٹسن گو اور گو+ پیش کیے جانے کے لیے تیار تھیں۔ قبل ازیں، گندھارا نے اپنے پورٹ قاسم پلانٹ پر ڈاٹسن کاروں کی مقامی پیداوار کے لیے نسان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ کمپنی نے اپنی گاڑیوں کے لیے پارٹس بنانے کے لیے 20 سے زیادہ وینڈرز کا انتخاب بھی کرلیا تھا۔ لیکن اب یہ سارے منصوبے ضائع ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ڈاٹسن کاروں کی پیداوار ایک بڑا منصوبہ ہے کہ جس پر ملک کے موجودہ اقتصادی حالات میں عمل نہیں کیا جا سکتا۔ کمپنی کے عہدیداروں کے مطابق کیونکہ آٹو مارکیٹ کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے کہ جس میں خراب ہوتے معاشی حالات، اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیوں کا نفاذ، شرحِ سود میں اضافہ، بڑھتی ہوئی شرحِ تبادلہ اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی قدر شامل ہیں، اس لیے اس منصوبے کو برقرار رکھنے پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے۔ ان عوامل نے گزشتہ سال بھر میں اس منصوبے کے مالی امکانات تبدیل کر کے رکھ دیے ہیں۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر نے مقامی سطح پر بننے والی کاروں کی فروخت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کاریں بھی سیلز کے معاملے میں مشکلات سے دوچار ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ اقتصادی حالت مارکیٹ میں نئے اداروں کے لیے مناسب نہیں۔
وفاقی حکومتوں کی جانب سے متعدد اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگانے سے حالات مزید بگڑ گئے۔ اس نے مقامی سطح پر بننے والی تمام اقسام کی گاڑیوں پر 2.5 سے 7.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) لگائی ہے جو انجن کی گنجائش کے لحاظ سے تین مختلف زمروں میں تقسیم کی گئی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں گاڑیوں کی قیمتیں پہنچ سے باہر نکل جانے سے صارفین کی قوتِ خرید کو سخت دھچکا پہنچا ہے۔ آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-21ء مقابلے کی فضاء بڑھانے کے لیے نئے آٹو اداروں کو لانے کے لیے متعارف کروائی گئی تھی۔ لیکن موجودہ حالت نئے تو چھوڑیں، پہلے سے موجود اداروں کے لیے بھی سازگار نہیں دکھائی دیتے۔ حکومت کو صنعت کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے ورنہ کوئی نیا ادارہ باقی نہیں بچے کا۔ موجودہ ادارے بھی مارکیٹ میں کم ہوتی ہوئی طلب کی وجہ سے اپنی پیداوار روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ہمیں نیچے تبصروں میں آگاہ کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔