پاکستان جاپان بزنس کونسل (PJBC) کے صدر رانا عابد حسین نے منگل کو ناگویا میں ہونے والے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو محدود کرکے وفاقی حکومت اربوں روپے کا نقصان اٹھا رہی ہے۔
جنوری میں حکومت نے ایک SRO 52(1) 2019 پیش کیا تھا کہ جس میں وزارتِ تجارت نے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر شرائط لاگو کی تھیں۔ ان کے مطابق ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی لازمی غیر ملکی زر مبادلہ (فارن ایکسچینج) میں ہو۔ یہ ادائیگی گاڑی درآمد کرنے والے فرد کی جانب سے براہ راست بیرونِ ملک سے ارسال کیا جانا ضروری ہے۔
SRO 52(1) 2019 پر PJBC اور پاکستان آٹوموٹِو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے درمیان عدم اتفاق ہے۔ PJBC چیف کا مطالبہ ہے کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ والی شرط ختم کرے اور امپورٹ بزنس کو بڑھنے دے۔ دوسری جانب PAMA کے DG عبد الوحید خان نے پہلے SRO 52(1) 2019 کی یہ کہتے ہوئے حمایت کی کہ پاکستان میں پھیلنے اور سرمایہ کاری کرنے پر مقامی آٹومیکرز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی وجہ سے کسی کو مقابلے کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ میں کمی
گزشتہ ماہ ہم نے بتایا تھا کہ فروری2019ء میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں 74 فیصد کی بہت بڑی کمی آئی ہے، جو پچھلے پانچ سالوں میں بدترین مہینہ تھا۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹس(PBS) کے ظاہر کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گاڑیاں درآمد کرنےکا رحجان بہت تیزی سے کم ہوا ہے۔ جنوری 2019ء کے مقابلے میں کہ جب درآمد 37 ملین ڈالرز کے لگ بھگ تھی، یہ 9.5 ملین ڈالرز تک کم ہوئی جو ایک ماہ کے عرصے میں 74 فیصد کی واضح کمی ہے۔
فروری 2019ء کے مہینے میں سال بہ سال کا تقابل بھی کریں تو 2018ء کے اسی مہینے کے مقابلے میں گاڑیوں کی درآمد پر 64 فیصد کمی دیکھی گئی۔ گاڑیوں کی درآمد پر تازہ پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ جاپان سے تمام سپلائرز نے نئی پالیسی لاگو ہوتے ہی پاکستان کے لیے شپمنٹس معطل کردی ہیں۔
SRO 52(1) 2019 کیا ہے؟
پاکستان میں جاپان سے درآمد ہونے والی بیشتر استعمال شدہ 660-1000cc کیٹیگری کی ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہتر فیول اکانمی رکھتی ہیں۔ جاپانی ڈومیسٹک مارکیٹ (JDM) استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت مندرجہ ذیل تین اسکیموں کے تحت ہے:
ٹرانسفر آف ریزیڈنس
بیگیج
گفٹ
اسکیم سے قطع نظر امپورٹ ڈیوٹی وہی ہے، جس نے گاڑیوں کی انجن گنجائش کو بڑھا دیا۔ لوگ صرف ذاتی استعمال کے لیے گاڑیاں درآمد کر سکتے ہیں البتہ ٹریڈرز بعد میں گاڑیاں مقامی مارکیٹ میں فروخت کر دیتے۔
مزید یہ کہ ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی غیر ملکی زرِ مبادلہ میں کرنا ہوگی جس کا انتظام صرف دو قسم کے افراد کر سکتے ہیں – پاکستانی شہری یا مقامی وصول کنندہ۔ غیر ملکی زرِ مبادلہ کو لازماً بینک انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ غیر ملکی ترسیلِ زر (remittance) کی مقامی کرنسی میں تبدیلی کے ثبوت کی ضرورت ہوگی۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی یہ خاص شرط ابتدائی طور پر نومبر 2017ء میں لگائی گئی تھی لیکن جلد ہی فروری 2018ء میں اٹھا لی گئی لیکن اِس سال دوبارہ بحال کردی گئی۔
غیر ملکی زرِ مبادلہ کی شرط پہلے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-2021ء کے ذریعے لگائی گئی تھی۔ وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات ملک کے سکڑتے ہوئے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کے لیے موزوں نہیں کیونکہ چند تاجر رقوم کی منتقلی کے لیے ہنڈی/حوالے کااستعمال کر رہے ہیں۔
SRO کے کے مطابق ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے درکار ترسیلاتِ زر اس پاکستانی شہری کے کھاتے سے لازماً وصول کیے جائیں گے جو گاڑی پاکستان بھیج رہا ہے۔ اکاؤنٹ نہ ہونے یا نہ چلنے کی صورت میں ترسیلاتِ زر خاندان کے کسی قریبی رکن کے کھاتے سے وصول کی جا سکتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ تاجروں کی جانب سے درآمدی پالیسی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا گیا جس کا نتیجہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی کی صورت میں نکل رہا تھا۔
دریں اثناء، استعمال شدہ گاڑیوں کے امپورٹرز نے زور دیا کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو کمرشلائز کرے، تاکہ ریونیو بھی حاصل کر سکے اور ممکنہ خریداروں کو مزید مواقع بھی ملیں۔
مزید خبروں کے لیے پاک ویلز کو فالو کیجیے اور اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔