ڈیزل انجن میں ہائیڈروجن فیول کی براہ راست انجکشن کیوں ممکن نہیں ہے؟
ہائیڈروجن گیس ڈیزل کے مقابلے میں تین گنا زیادہ توانائی رکھتی ہے۔ اس کے شعلے کی رفتار(جلنے کے دوران شعلہ پھیلنے کی رفتار) ڈیزل کے مقابلے میں 5 سے 6 گنا زیادہ ہے۔ اس کے جلنے کا عمل صاف ہے جو صرف پانی پیدا کرتا ہے۔ تو کیا ہو گا اگر ہم اپنے عام ڈیزل انجن میں ڈیزل کی جگہ تھوڑی سی ہائیڈروجن ڈال دیں؟ یہ ماحول دوست ایندھن ہمارے نامیاتی ایندھن کو بچانے کے ساتھ ساتھ ڈیزل انجن کی کارکردگی کو بھی مزید بہتر بنائے گا۔
ڈیزل انجن کیا ہے؟
آئیے سب سے پہلے تھوڑا ڈیزل انجن کو سمجھتے ہیں۔ ایک ڈیزل انجن ڈیزل سائیکل کے تحت کام کرتا ہے جسے سب سے پہلے جرمن انجینئر روڈولف ڈیزل نے 1892 میں بنایا۔ سلنڈر میں ہوا کودبائیں (عموماً دباو کا تناسب 14:1 سے 22:1 ہو) جب تک یہ اتنا گرم نہ ہو جائے کہ ڈیزل کو خود جلا سکے۔ اس جلنے کے عمل سے پیدا ہونے والی گرم ہوائیں پسٹن کو حرکت دیں گی جس سے کرینک شافٹ حرکت میں آئے گی۔
ڈیزل کا جلنا
ڈیزل انجن میں ڈیزل کی انجیکشن ڈیزل سائیکل کے آخر میں ہوتی ہے (ٹاپ ڈیڈ سینٹر کے قریب) جب پسٹن کمپریشن سٹروک کے آخر میں ہوتا ہے۔ چونکہ یہاں سپارک پلگ نہیں ہوتے اس لیے ڈیزل میں سینٹین کی مقدار (آکٹین کا الٹ) کا زیادہ ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے تاکہ وہ فوراً سے خود جل سکے۔ جیسے ہی ڈیزل ایندھن انجیکٹ ہوتا ہے گرم کمپریسڈ ہوا اسے گھیر کر جلاتی ہیں جس سے گرم گیس پیدا ہوتی ہیں جو پسٹن کو نیچے کی طرف حرکت دیتی ہیں جس سے پاور پیدا ہوتی ہے۔
ہائیڈروجن انجیکشن
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اگر ڈیزل ایندھن کی جگہ صرف 10% ہائڈروجن استعمال کی جائے تو وہ اپنے تیز جلنے کی شرح اور تیز شعلوں کی وجہ سے اس سارے جلنے کے عمل کو چلائے گی جس کے نتیجے میں ڈیزل انجن کی کارکردگی، (جدید ڈیزل انجن 45% کے کارکردگی لیول تک پہنچ سکتے ہیں) انجن پاور اور ٹارق مزید بہتر ہو جائیں گے جبکہ کاربن سے متعلقہ اخراج کم ہو گا۔
کیوں ہم ان انجنوں کو استعمال میں نہیں دیکھتے؟
انجینئرز اور محققین کو ہائڈروجن کو انجن کے اندر جلانے کے حوالے سے بےشمار مشکلات کا سامنا ہے۔
ہائیڈروجن گیس کو ہائی پریشر پر گیس سلینڈر میں سٹور کرنا خطرناک ہے۔ بڑے پیمانے پر ہائیڈروجن گیس کی پیداوار، نقل و حرکت اور ہائیڈروجن گیس سٹیشنز کا قیام بھی ایک حفاظتی مسلئہ ہے۔
ہائیڈروجن کو براہ راست ان ٹیک پورٹس یعنی پورٹ فیول انجیکشن سے داخل کرنے کا نتیجہ بیک فائرنگ ہو سکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہائیڈروجن ایک انتہائی آتشگیر گیس ہونے کی وجہ سے پیچھے ان ٹیک پورٹس میں جلنا شروع ہو سکتی ہے جو کہ پھر سے ایک سیفٹی کا مسلئہ ہے۔ ہائیڈروجن کے براہ راست داخلہ سے اس مسلئہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پورٹ فیول انجیکشن میں اگر انٹیک ائیر کی کچھ مقدار کو ہائیڈروجن گیس سے بدل دیا جائے تو اس کا نتیجہ والیومیٹرک کارکردگی میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔ ڈی آئی ہائیڈروجن بھی اس مسلئے کو حل کرتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف ہائیڈروجن گیس کی براہ راست سلینڈر میں منتقلی کے لیے ہائی پریشر گیس انجیکٹر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ زیادہ مہنگے ہیں۔
مستقبل قریب میں، جب ایندھن کی قیمتیں اتنی کم ہیں اور موجودہ گیس کے اخراج کے سخت معیار(یورو 6 مگر افسوس کے پاکستان میں صرف یورو 2 ہی لاگو ہے) کو پہلے سے موجود سسٹم یعنی کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن کے لیے ڈیزل آکسیڈیشن کیٹلسٹ اور ڈیزل پارٹیکولیٹ فلٹر سے کالک اور پارٹیکولیٹ مواد اور منتخب کیٹالئٹیک رڈکشن سسٹم سے این او ایکس ایڈ بلیو جیسے اخراج کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ جس سے ہائڈروجن کے استعمال کو نامیاتی ایندھن پر ترجیح دینے کا خیال عملی طور پر اتنا پُر کشش نہیں ہے۔