گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر؛ ہونڈا ایٹلس نے آن لائن پورٹل بنادیا
پاکستان میں متعارف کروائی جانے والی نئی ہونڈا سِوک کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کا اندازہ سوشل میڈیا ویب سائٹس اور فورمز پر سوک پر ہونے والے گفتگو کے علاوہ پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ پاما کی رپورٹ کے مطابق ہونڈا پاکستان نے گزشتہ سال اگست 2015 میں مجموعی طور پر 2,002 ہونڈا سِوک (Civic) اور ہونڈا سِٹی (City) فروخت کی تھیں جبکہ رواں سال اگست 2016 میں ان گاڑیوں کی فروخت 50 فیصد اضافے کے بعد 3174 تک پہنچ چکی ہے۔
گو کہ 3000 گاڑیوں کی ماہانہ فروخت ایک مناسب تعداد معلوم ہوتی ہے لیکن یہ اس اندازے سے کافی کم ہے جو پاکستان میں سوک 2016 کو حاصل ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ ہونڈا ایٹلس کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی سوک پر اول روز سے اٹھنے والے سوالات رہے۔ گو کہ ہونڈا پاکستان نے بعد میں سوک کی اکثر خامیوں کو دور کردیا تاہم بہت زیادہ مانگ اور گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے بھی صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی زیادہ ذمہ داری ہونڈا ڈیلرشپس پر عائد ہوتی ہے کہ جو اپنے صارفین کو گاڑی فراہم کرنے کی کوئی ایک حتمی تاریخ بتانے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہونڈا سِوک 2016 بمقابلہ آوڈی A3 – کس کا پلڑا بھاری ہے؟

گاڑیوں کی فراہمی سے متعلق صارفین کی پریشانی دور کرنے کے لیے ہونڈا ایٹلس نے ایک آن لائن پورٹل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے گاڑی بُک کروانے والے خریدار اپنی گاڑی حاصل کرنے کی تاریخ معلوم کرسکتے ہیں۔ اس پورٹل کو ہونڈا ایٹلس کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر آپ اس سے قبل جرمن گاڑیوں کی ویب سائٹ پر گاڑیوں کی فراہی سے متعلق پورٹل استعمال کرچکے ہیں تو ان کے مقابلے میں یہ آپ کو بہت سادہ اور آسان لگے گا۔ یہاں آپ کو صرف اپنا رلیشن شپ نمبر، جو دراصل بُکنگ نمبر ہے، کے ساتھ اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر یا قومی ٹیکس رجسٹریشن نمبر درج کرنا ہے۔ فراہم کردہ معلومات کی تصدیق کے بعد آپ کو گاڑی فراہم کرنے کی تاریخ بتادی جائے گی۔


ہونڈا ایٹلس کی جانب سے تیار کیا جانے والا یہ پورٹل پاکستان میں اپنی طرز کی پہلی منفرد سہولت ہے جس کے استعمال سے آپ بار بار ڈیلرشپس کو فون کرنے اور ایک ہی بات پوچھنے پر الگ الگ جواب ملنے کی پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر پاکستانی ادارے بھی اپنی گاڑیوں کی فراہمی سے متعلق صارفین کی سہولت کے لیے کوئی قدم اٹھاتے ہیں یا نہیں۔