فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی رپورٹوں کے مطابق درآمد شدہ گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی 2016-17ء سے 2017-18ء کے عرصے کے دوران 15.4 فیصد سے 15.6 فیصد تک بڑھائی گئی۔ اس عرصے میں بالواسطہ ٹیکسز بدستور 26 فیصد اور فیڈرل ٹیکسز 16 فیصد رہے۔ امپورٹ ڈیٹا اعداد و شمار کے مطابق مجموعی کسٹمز ڈیوٹی کا 59 فیصد پاکستان کسٹمز ٹیرف (PCT) میں 10 بڑی کموڈٹیز سے حاصل کیا گیا۔ ان کموڈٹیز میں ریونیو لانے والوں میں گاڑیاں سرفہرست ہیں۔ گاڑیوں نے سال 2016-17ء کے دوران کسٹمز ڈیوٹی کا 15.6 فیصد حصہ دیا جو مالی سال 2017-18ء کے درمیان بڑھ کر 24 فیصد تک جا پہنچا ہے۔
پیٹرولیئم آئل لبریکنٹس (POL) کسٹمز ڈیوٹی کے ذریعے بدستور قومی ریونیو میں دوسرے سب سے بڑے حصہ دار رہے۔ پیٹرولیئم آئل لبریکنٹس کی قابل محصول درآمدات نے مالی سال 2016-17ء میں دیے گئے 16 فیصد کے مقابلے میں 25.7 فیصد تک کا اضافہ کیا۔ اسٹیل اور آئرن کسٹمز آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ رہا جیسا کہ FBR نے اس کی نمو 25 فیصد ریکارڈ کی۔ اس عرصے میں مکینیکل اپلائنسز اور مشینری برآمدات نے بھی FBR کے بذریعہ کسٹمز ڈیوٹی حاصل کیے گئے ریونیو میں 9.4 فیصد کا حصہ ڈالا۔
جاپان سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کا رحجان پاکستان میں روزبروز بڑھ رہا ہے۔ امپورٹڈ گاڑیاں، بالخصوص 660cc ہیچ بیکس مقامی طور پر اسمبل کی گئی گاڑیوں کے مقابلے میں اپنی متاثر کن سیفٹی خصوصیات کی وجہ سے پسند کی جا رہی ہیں۔ عوام اپنا سرمایہ ایسی مصنوعات پر لگانا چاہتے ہیں جو قابل قدر اہمیت رکھتی ہوں۔ مقامی طور پر اسمبل شدہ گاڑیاں اپنے سست پیداواری عمل کے ساتھ مارکیٹ کی طلب کو پورا نہیں کر سکتیں۔ امپورٹڈ گاڑیوں نے اس خلاء کو زبردست انداز میں پورا کیا ہے جن سے صارفین کو زیادہ انتخاب کی سہولت ملی ہے۔
گاڑیوں کی درآمد نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کو بھی زبردست فائدہ پہنچایا ہے۔ 2016-17ء کے اعداد و شمار دیکھیں کہ درآمد شدہ گاڑیوں سے 78.313 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوا۔ درآمد شدہ گاڑیوں کو لینے کے اس رحجان کے ساتھ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FFBR) نے مالی سال 2017-18ء میں گاڑیوں کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ریکارڈ توڑ 97.094 ارب روپے ریونیو حاصل کیا۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں حیران کن 24 فیصد اضافہ جو پاکستان کے قومی خزانے کو بڑی آمدنی دے رہا ہے۔
گو کہ کسٹمز ڈیوٹی کے ذریعے ریونیو میں اضافہ قابل تحسین ہے، لیکن حکومت کو موجودہ معاشی صورت حال میں توازن برقرار رکھنے کے لیے برآمدات کے معاملے کو بھی لازمی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ پہلے ہی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور درآمدی بلوں کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے مخصوص پالیسی بنانا ضروری ہے۔