گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کی افواہ؛ سچ کیا ہے؟
حکومت کی جانب سے گزشتہ سال جاری کیا گیا ایس آر او 1067(1)2017 سامنے آنے بعد سے استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں افراتفری نظر آرہی ہے۔ نئے ایس آر او کے ذریعے حکومت نے ان چور طریقوں کی بیخنی کی کوشش کی ہے جس کی مدد سے لوگوں کو ذاتی سامان، تحفے یا پھر رہائش میں تبدیلی کی اسکیموں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ اس ایس آر او کا اصل مقصد پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد میں کٹوتی لانا ہے کیوں کہ بیرون ملک سے گاڑیاں منگوانے کی وجہ سے ملک کو معاشی خسارے ہورہا ہے۔ ہم نے قارئین کو اس ایس آر او سے متعلق تفصیلات معلومات بہت پہلے ہی فراہم کردی تھیں؛ تاہم سوشل میڈیا سائٹس پر ایک مرتبہ پھر یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ سال 2018ء میں بیرون ملک سے گاڑیاں منگوانے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے گی۔
سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگہ نے قریباً دو ماہ قبل، نومبر 2017ء میں، انگریزی روزمانے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت مکمل طور پر گاڑیوں کی درآمد پر یکدم پابندی عائد نہیں کرنا چاہتی بلکہ اسے روکنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ
’’ہم غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے معاشی خسارے کو بڑھنے سے روکا جاسکے‘‘
لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ حکومت گاڑیوں کی درآمدات کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے برعکس حکومت درآمد سے متعلق قوانین کو مزید مضبوط بنانا چاہتی ہے تاکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہی اپنی گاڑیاں یہاں لا سکیں کیوں کہ یہ اسکیمز انہی لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہیں جو ملک سے باہر رہتے ہیں۔
نئے قوانین کے مطابق تمام گاڑیاں، نئی اور استعمال شدہ دونوں، ہی کو صرف ذاتی سامان، تحفے یا رہائش میں تبدیلی کے تحت ہی درآمد کیا جاسکے گا۔ اس ضمن میں گاڑی کی کلیئرنس سے قبل اس کی ڈیوٹی اور تمام ٹیکس بھی گاڑی کے مالک غیر ملکی زر مبادلہ میں ادا کرنا ہوگی یا پھر ملک میں گاڑی وصول کرنے والا غیر ملکی ترسیلات زر کو مقامی سکے میں تبدیلی ظاہر کرنے والا بینک کے معاوضہ سرٹیفکیٹ ظاہر کرنا ہوگا۔
پاکستانیوں نے مالی سال 2015-16 میں 56 ہزار گاڑیاں جبکہ مالی سال 2016-17 میں 65 ہزار گاڑیاں درآمد کیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے حکومت نے درآمد پالیسی میں سختی کا فیصلہ کیا تاکہ موجودہ مالی سال 2017-18 میں ہونے والے مالی خسارے کو کم کیا جاسکے۔
علاوہ ازیں، سیکریٹری تجارت نے یہ بھی کہا کہ آئندہ سال سے گاڑیوں کی درآمدات کی شرح میں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا ایس آر او کی وجہ سے استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ پر گہرے اثرات پڑیں گے، جس کے بعد نہ صرف گاڑیوں کی درآمد میں وقفہ دیکھا جائے گا بلکہ مستقل میں گاڑی منگوانے کا عمل بھی دشوار ہوتا چلا جائے گا۔
یہ مضمون لکھنے کا مقصد قارئین کو باخبر کرناہے کہ حکومت 2018ء یا اس کے بعد بھی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی نہیں لگانا چاہتی البتہ ملک کو ہونے والے معاشی خسارے پر قابو پانے کے لیے بیرون ملک سے ہر قسم کی اشیا منگوانے کی حوصلہ شکنی کا منصوبہ رکھتی ہے۔