مقامی کار امپورٹرز نے ملک میں درآمد شدہ گاڑیوں پر ڈیوٹی امریکی ڈالرز میں ادا کرنے کے سرکاری فیصلے کو کلّی طور پر مسترد کردیا ہے، ایک مقامی آن لائن میڈیا ادارے کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ان سے رائے طلب نہیں کی گئی۔
امپورٹرز کا کہنا ہے کہ حکومت کی بے ڈھنگے فیصلے کرنے کی عادت نہ صرف مجموعی طور پر معیشت کو نقصان پہنچائے گی بلکہ شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کو بھی متاثر کرے گی۔ کئی لوگ اپنی ملازمتیں کھو بیٹھیں گے کیونکہ نئی پالیسی گاڑیوں کی درآمد کے امکانات کا خاتمہ کردے گی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایچ ایم شہزاد،چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرزایسوسی ایشن (APMDA) نے کہا کہ کامرس ڈویژن کا یہ قدم ملک میں بے روزگاری میں اضافہ کرے گا۔ ملک میں 70,000 گاڑیاں درآمد کی جاتی ہیں اورزیادہ تر 660 اور 1000cc کی کاریں ہوتی ہیں۔ یہ گاڑی کم ایندھن میں زیادہ فاصلہ طے کرتی ہیں، ان کی دیکھ بھال آسان ہوتی ہیں اور کسی بھی مقامی کار میکر کی جانب سے بنائی گئی نہیں ہوتیں۔ یوں یہ مقامی صارفین کی ضروریات پوری کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی اجازت دینی چاہیے۔ یہ نہ صرف مقامی صارفین کی ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ کئی ملینز کی صورت میں ریونیو بھی پیدا کرے گا۔
ملک میں تجارتی خسارے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے درآمدی پالیسی میں ترامیم کے ساتھ ایک نیا SRO – 52 (1) 2019 جاری کیا۔ جس کے مطابق درآمدکی گئی استعمال شدہ گاڑیوں پر پرسنل پیگیج، گفٹ اسکیم یا ٹرانسفر آف ریزیڈنس کے تحت ڈیوٹی اور ٹیکسز امریکی ڈالرز میں ادا کیے جائیں گے۔ اس کا انتظام بیرونِ ملک مقیم پاکستانی یا مقامی وصول کنندہ کریں گے جو بینک اِن کیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ذریعے مقامی کرنسی میں غیر ملکی ترسیلِ زر کی منتقلی ظاہر کرکے کریں گے۔
نئے SRO کے اجراء نے مقامی کار مارکیٹ میں زبردست بحث جنم دی ہے جس میں کچھ حلقے اس کے حق میں ہیں جبکہ دیگر سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔ اول الذکر کا کہنا ہے کہ حکومت کار امپورٹ اسکیموں کے نامناسب استعمال کو روک کر تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ جبکہ دوسرے حلقے کی رائے ہے کہ حکومت کو مارکیٹ میں داخل ہونے والے نئے اداروں اور موجودہ آٹومیکرز کو سہولت دینے کے لیے پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ ان کی فروخت نان-فائلر مسئلے کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ ایسا ہی SRO تجارتی خسارے کو کم کرنے اور امپورٹ اسکیموں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے 2017ء میں بھی جاری کیا گیا تھا۔
صنعت کی ایسی ہی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔