معدنی ذخائر کی موجودگی میں لوہے کی برآمدات کیوں؟
پڑوسی ملک بھارت میں مرسڈیز تیار ہونا شروع ہوگئی اور اب وہ یورو 4 معیار کا ایندھن استعمال کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں اس حوالے سے صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ گو کہ کچھ ہفتوں پہلے ہمیں یورو 2 کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں موصول ہوئیں تاہم گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ باوجودیکہ ہم گاڑیوں میں استعمال ہونے والے معیاری فولاد کا بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں،اب بھی گاڑیوں کے مختلف پرزے جاپان سے برآمد کیے جاتا ہے۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب ہم انڈس موٹرز کے کارخانے کا دورہ کر رہے تھے اور ہم اس بات پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پر ہے ہماری اسٹیل مل کو 100 بلین روپے کا نقصان ہوا جو سمجھ سے باہر ہے۔ اسی طرح تمام قدرتی ذخائر اور خام مال کی موجودگی کے باوجود گاڑیوں میں استعمال ہونے والے معیاری اسٹیل کو دوسرے ممالک سے برآمد کرنا بھی پلے نہیں پڑتا۔ اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو ماضی میں لیے چلتے ہیں۔
سال 1956ء میں پاکستان نے ریاستہائے متحدہ امریکہ سے اسٹیل مل کے شعبے میں تعاون کی گزارش کی جو صاحب بہادر نے رد کردی گئی۔ بعدازاں جرمنی کی کمپنی ‘کروپ’ نے لوہا، کوئلہ اور دیگر ذخائر نکالنے کی پیش کش کی تاہم اس دور کے وزیر برائے توانائی ذولفقار علی بھٹو نے اسے شرف قبلیت نہ بخشا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے ضلع میانوالی کا علاقہ کالا باغ معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن افسوس کہ اس کی وجہ شہرت صرف ڈیم کی تعمیر پر ہونے والی سیاست رہی ہے۔
تقریباً ایک دہائی بعد جرمنی کے ایک معروف ادارے زائلزگٹر (کارپوریشن لمیٹڈ) نے ذخائر نکالنے کی پیش کش کی جسے منظور کرلیا گیا اور پھر جرمن ادارے نے کالا باغ سے 5000 ٹن لوہا نکال کر گاڑیاں بنانے والی کمپنی واکس ویگن کو فروخت کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا۔ جرمنی کی طرف سے کراچی میں اسٹیل مل قائم کرنے کی بھی پیش کش کی جس میں یورپی بینکوں کی جابنب سے سرمایہ کاری کا منصوبہ شامل تھا تاہم پاکستانی حکومت نے اسے رد کر کے روس سے معاہدہ کرلیا۔
کاروباری اور کارکردگی دونوں اعتبار سے روس کے مقابلے میں جرمنی کہیں زیادہ بہتر تھا۔ نیز جرمنی اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا کہ کراچی میں قائم ہونے والی اسٹیل مل میں لوہا تیار کرنے کے لیے کالا باغ میں موجودی ذخائر کو استعمال کیا جائے۔
بہرحال، روس کی مدد سے کراچی میں قائم ہونے والی اسٹیل مل پر 247 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ اس اسٹیل مل نے درآمد شدہ خام مال سے لوہا تیار کرنا شروع کیا جو عالمی مارکیٹ کے معیار کے مطابق نہیں تھا۔ اگر جرمنی کی مدد سے یہی کام کیا جاتا تو نہ صرف ہم اپنے قومی ذخائر کو بہتر طور پر استعمال کرسکتے تھے بلکہ مقامی گاڑیوں کی صنعت کو ہونے والے تجارتی خسارے سے بھی محفوظ رہتے اور بہت ممکن تھا کہ آج کراچی میں تباہ حال اسٹیل مل کے بجائے مستحکم کارخانہ موجود ہوتا۔
ایک اندازے کے مطابق کالاباغ میں 350 ملین ٹن فولادی ذخیرہ ہے جبکہ دیگر معدنیات کے مجموعی ذخائر 1,427.17 ملین ٹن ہیں۔ پنجاب سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ کے مطابق اس علاقے میں موجود ذخائر کی دولت اتنی زیادہ ہے جتنی آسٹریلیا میں کان کنی کا سب سے بڑا ادارہ بی ایچ پی کو تیار کرنے کے لیے دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
اس حوالے سے حال ہی میں ہمارے دیرینہ دوست ملک چین کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھی رواں سال کے آغاز میں فولاد، کوئلہ، سونا اور تانبے کے ذخائر کو استعمال کرتے ہوئے ملک کی معاشی حالت بہتر کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اگر آپ ان ذخائر کے بارے میں مزید پڑھنا چاہیں تو یہ رپورٹ ملاحظہ کریں جسے پڑھ کر آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غدار وطن کو محب وطن کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ ہم آزمائے ہوئے لوگوں کو بارہا اپنے سروں پر مسلط کرلیتے ہیں جس سے کسی اور کا نہیں بلکہ خود ہمارے ملک کا نقصان ہوتا رہا ہے۔
آج واکس ویگن، نسان اور بہت سے دیگر گاڑیاں بنانے والے عالمی ادارے پاکستان میں اپنے کارخانے لگانا چاہتے ہیں۔ ا ن میں سے زیادہ تر کمپنیاں گاڑیوں کے پرزے باہر سے منگوا کر یہاں انہیں جوڑ کر گاڑیاں تیار کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں ہمارے لیے بہترین موقع ہے کہ قدرتی ذخائر کو استعمال کریں اور ان اداروں کو موقع گاڑیوں کے چھوٹے بڑے تمام پرزے مقامی سطح پر تیار کرنے کی طرف راغب کریں۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں فرق پڑے گا بلکہ اس شعبے کی معاشی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔