مِنی بجٹ: آٹوموبائل سیکٹر کے لیے رحمت یا زحمت؟

0 265

مالیاتی ترمیمی (دوسری ترمیم) بل 2019ء (مِنی بجٹ) بالآخر 23 جنوری 2019ء کو وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے پیش کردیا گیا۔

اس میں حکومت نے ایک مرتبہ پھر درآمد شدہ لگژری کاروں کو ہدف بنایا ہے۔ 1800cc سے زیادہ انجن گنجائش رکھنے والی درآمد شدہ جیپوں اور کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5 فیصد بڑھا کر  20 سے 25 فیصد کر دی گئی ہے۔ 3000cc سے زیادہ انجن گنجائش رکھنے والی گاڑیوں اور جیپوں کی درآمد پر یہ ڈیوٹی 30 فیصد ہوگی۔ مزید یہ کہ حکومت نے 1800cc سے زیادہ انجن گنجائش رکھنے والی مقامی طور پر تیار یا اسمبل شدہ گاڑیوں، بشمول SUVs ، پر 10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی بھی تجویز کی ہے۔ مزید برآں، نان-فائلرز جو پہلے گاڑیاں نہیں خرید سکتے تھے اب زیادہ ٹیکس ادا کرکے 1300cc اور اس سے کم کی مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔

توقعات کے مطابق منی بجٹ نے آٹوموبائل سیکٹر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس میں حیرانگی کی بات نہیں کہ پاک سوزوکی نے نان-فائلرز پر عائد پابندی ہٹانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ شفیق احمد شیخ، ترجمان پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ، نے اس کو ایک زبردست قدم قرار دیا ہے۔ وہ توقع ظاہر کرتے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی پیش بینی کی کہ یہ قدم کاروباری برادری کے حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کو بحال کرے گا۔

البتہ منی بجٹ پوری آٹوموٹِو انڈسٹری کو خوش نہیں کر پایا۔

ہیوی کمرشل گاڑیوں (HCVs) اسمبل کرنے والے مطمئن نہیں ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان آٹوموٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) عبد الوحید خان زور دیتے ہیں کہ اُن کے ادارے نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نان-فائلرز کو تمام گاڑیوں کی خریداری کی اجازت دے۔ اُن کا خیال ہے کہ حکومت نے HCV سیکٹر کو نظر انداز کیا ہے۔

نان فائلرز سمیت کئی شعبوں کی جانب سے HCV سیکٹر کو سراہا جاتا ہے۔ اب ان کے پاس مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کو خریدنے کا آپشن ہے جیسا کہ ٹویوٹا XLi،GLi اور کلٹس، جمنی، بولان، ویگن آر اور دیگر جیسے سوزوکی کے ماڈلز۔

آٹوموٹو انڈسٹری کی دیگر خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

Join WhatsApp Channel