PSO اور بائیکو نے مالی سال ‏2018-19ء‎ کے لیے خسارہ جبکہ PPL نے منافع ظاہر کردیا

0 204

پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO)، بائیکو پٹرولیم اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (PPL) سب نے 30 جون 2019ء کو مکمل ہونے والے مالی سال ‏2018-19ء‎ کے لیے اپنے مالیاتی نتائج پیش کردیے ہیں اور نتیجہ PSO اور بائیکو کے منافع میں کمی اور PPL کے منافع میں نمایاں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ 

پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO) کے منافع میں 2.30 فیصد کمی 

پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO) پاکستان کی سب سے بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی ہے کہ جس کا منافع پچھلے مالی سال کے مقابلے میں مالی سال ‏2018-19ء‎ کے دوران 2.30 فیصد کمی کے ساتھ 15.46 ارب روپے سے گھٹ کر 15.10 ارب روپے ہو گیا۔ البتہ کمپنی کی خالص فروخت 1.18 ٹریلین روپے تک جا پہنچی جو پچھلے سال کے اسی دورانیے میں 1.06 ٹریلین کی فروخت سے 11.45 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن یہ اضافہ اس عرصے میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں مصنوعات کی لاگت 12.55 فیصد اضافے کے ساتھ 1.15 ٹریلین روپے تک جا پہنچی جو پچھلے سال 1.02 ٹریلین روپے تھی۔ ملک میں سخت معاشی حالات کے باوجود PSO مائع ایندھن میں 42.40 فیصد کے ساتھ بدستور بڑا مارکیٹ شیئر رکھتا ہے۔ مالی سال ‏2018-19ء‎ میں کمپنی کے مجموعی اخراجات میں پچھلے سال کے 15.26 ارب روپے کے مقابلے میں 18 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو کل 17 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح مالیاتی لاگت میں بھی 94.32 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا جو 5.15 ارب روپے سے بڑھ کر اِس سال 9.95 ارب روپے ہوگئی۔ شرح سود بھی اس سال کچھ زیادہ رہی کہ جس نے آئل کمپنی کی دیگر آمدنی کو 126 فیصد تک پہنچا دیا۔ پٹرولیم مصنوعات اس عرصے کے دوران زیادہ مارجن پر فروخت کی گئیں جس کا نتیجہ پچھلے سال کے 7.50 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 16.92 روپے کی دیگر آمدنی کی صورت میں نکلا۔ کمپنی 307 ارب روپے کی بڑی قابلِ وصول بقایا جات بھی رکھتی ہے جو اس عرصے کے دوران بجلی کے شعبے، SNGPL اور PIA پر لاگو رہے۔ پچھلے سال کے 155.93 روپے کے مقابلے میں PSO نے مجموعی شیئرز 155.67 پر مکمل کیے، یعنی 6.96 ملین شیئرز پر 0.17 فیصد کی کمی۔ 

بائیکو پٹرولیم نے 1.68 ارب روپے کا خسارہ ظاہر کیا 

دوسری جانب مالی سال ‏2018-19ء‎ بائیکو پٹرولیم کے لیے مشکل سال رہا کہ جسے مالی سال ‏2017-18ء‎ میں 5.01 ارب روپے کے منافع کے مقابلے میں اِس مرتبہ 1.68 ارب روپے کے خسارے کا سامنا رہا۔ ریفائنری کی مجموعی فروخت میں 251 ارب روپے کا اضافہ ہوا یعنی یہ پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد نمو ظاہر کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر بائیکو پٹرولیم نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور اس عرصے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی سیلز میں 197.83 ارب روپے کا یعنی 19 فیصد کا اضافہ دیکھا۔ کمپنی کی سیلز کی لاگت بھی 24.40 فیصد کے اضافے کے ساتھ پچھلے سال کے 158.05 ارب روپے کے مقابلے میں 196.62 ارب روپے تک جا پہنچی۔ البتہ خالص منافع 9.1 ارب روپے سے 78 فیصد کم ہوتے ہوئے مالی سال ‏2018-19ء‎ میں 1.9 ارب روپے رہ گیا۔ مالی لاگت میں بھی 6.62 فیصد کا اضافہ رہا جو 2.87 ارب روپے سے بڑھ کر اس عرصے میں 3.06 ارب روپے ہوگئی۔ بائیکو پٹرولیم کو ملک میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے 4.19 ارب روپے کے مبادلے کا خسارہ بھی سہنا پڑا۔ کمپنی کے ریفائننگ مارجن بھی حکومت کی جانب سے پچھلے مہینے کی شرحِ تبادلہ پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں طے کرنے کی پالیسی کی وجہ سے کم ہوئے۔ البتہ کمپنی کا ریٹیل نیٹ ورک 351 سے بڑھ کر 379 تک جا پہنچا یعنی 28 نئے ریٹیل آؤٹ لیٹس کا اضافہ ہوا۔ 

پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (PPL) کے منافع میں 35 فیصد اضافہ 

پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (PPL) ملک کے آئل سیکٹر کی ایک اور کمپنی ہے جس نے ٹیکس کی ادائیگی کے بعد مبینہ طور پر منافع حاصل کیا ہے۔ کمپنی کا منافع 35 فیصد اضافے کے ساتھ پچھلے سال کے 45.68 ارب روپے سے بڑھ کر اس مرتبہ 61.63 ارب روپے ہو چکا ہے۔ شرحِ تبادلہ میں اضافے اور تیل کی قیمتوں میں بڑھاوے کے نتیجے میں PPL نے اس سال اپنی آمدنی 30 فیصد اضافے کے ساتھ 126 ارب روپے سے 164 ارب روپے کرلی۔ کمپنی کا کُل منافع 99.40 ارب روپے تک پہنچ گیا جو پچھلے سال 74.21 ارب روپے تھا۔ دیگر آمدنی میں بھی اس عرصے میں 77 فیصد اضافہ ہوا۔ البتہ تیل کی تلاش پر آنے والی لاگت 123 فیصد کے زبردست اضافے کے ساتھ 24.8 ارب روپے ہوگئی۔ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے مالی سال ‏2018-19ء‎ میں پچھلے سال کے 20.1 روپے کے مقابلے میں 27.2 روپے آمدنی فی حصص (EPS) ظاہر کی۔ کمپنی کے حصص 0.59 روپے کی کمی کے ساتھ 129.56 روپے تک پہنچے جبکہ مارکیٹ میں کل حجم 3.57 ملین کا رہا۔ مالی نتائج نے مالی سال ‏2018-19ء‎ کے دوران پچھلے سال کے 0.81 روپے فی حصص آمدنی کے مقابلے میں 0.43 روپے فی حصص کا نقصان ظاہر کیا۔ 

اقتصادی عمل کے سکڑنے سے ملک میں مجموعی طور پر صنعت پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں مقامی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ تک کم ہوئی۔ اس سے خالص فروخت تو بڑھ گئی لیکن ساتھ ہی بڑے پیمانے پر فروخت میں مجموعی طور پر کمی ریکارڈ کی گئی۔ ملک کی معاشی نمو 3.3 فیصد دیکھی گئی جو پچھلے نو سالوں کی کم ترین شرح ہے۔ ملک میں تیل کی کھپت میں 22 فیصد کی کمی آئی۔ آٹو انڈسٹری بھی آئل سیکٹر کی طرح ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے بدترین حالات سے دوچار ہے۔ آٹو مینوفیکچررز اپنی فروخت اور منافع میں ناقابلِ یقین حد تک نقصان ظاہر کر رہے ہیں۔ 

ہماری طرف سے اتنا ہی۔ مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں اور اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کریں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.