بے ہنگم ٹریفک میں بچاؤ کے آزمودہ طریقے
جب سے میں نے گاڑی چلانا شروع کی تب سے میری زندگی ہی بدل گئی۔ چونکہ میرے دوستوں کی فہرست میں کئی لڑکے شامل ہیں اور دفتر میں بھی تمام دن ’حضرات‘ کے درمیان کام کرتے ہوئے گزرتا ہے، اس لیے مجھے اکثر خواتین کی بری ڈرائیونگ کے قصے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان باتوں کو سن کر میں اس خیال کو حقیقت مان بیٹھی تھی کہ خواتین واقعی بہت بری طرح گاڑی چلاتی ہیں۔ لیکن چند ماہ خود گاڑی چلانے کے بعد اندازہ ہوا کہ مرد حضرات بھی خواتین جتنے یا شاید ان سے بھی زیادہ برے ڈرائیورز ہوتے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ کراچی کی سڑکیں ہیں جن پر گاڑی چلانا ماہر و تجربکار ڈرائیور کے لیے بھی آسان نہیں۔
میری ڈرائیونگ کا سنسنی خیز آغاز بھی حکومت کی جانب سے شہر بھر کی شاہراہوں کی تعمیر نو کے ساتھ ہوا۔ یعنی سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔ شاہراہ فیصل اور یونیورسٹی روڈ کی مرمت، اورنج و گرین لائن بسوں کے سلسلے میں جاری تعمیرات، N-5 کی توسیع، گزری میں ذیلی گزرگاہ کی تعمیر کے عینی شاہد بننے والے کراچی کے شہری بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان شاہراہوں سے گزرنے کا سوچنا بھی کس قدر خوفناک ہے۔ آئیے، آپ کو کراچی کے ٹریفک سے متعلق چند اعداد و شمار بتاتے ہیں تاکہ آپ اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
- گیلپ سروے کے مطابق 2011 تک کراچی میں 26 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ تھیں1۔ 2016 میں اسی ادارے نے ایک اور سروے کروایا جس سے پتہ چلا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 15.75 فیصد کی سالانہ اوسط سے بڑھ رہی ہے۔ لہذا، محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں گاڑیوں کی تعداد میں سالانہ 12 فیصد اضافہ تو ہو ہی رہا ہے۔ اس اعتبار سے کراچی میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 51 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو راولپنڈی کی کل آبادی سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
- کراچی کی سڑکوں پر یومیہ 35 لاکھ گاڑیاں سفر کرتی ہیں2۔
- رش کے اوقات میں صرف شاہراہ فیصل پر 12 ہزار گاڑیاں موجود ہوتی ہیں3۔ تصور کریں کہ ایک زیر مرمت شاہراہ پر 12 ہزار سے زائد گاڑیاں کس قدر مشکل سے 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔
اور اگر اب بھی آپ کا دماغ نہیں چکرایا تو غیر قانونی تجاوزات، غیر قانونی پارکنگ، ٹریفک لائٹس کی عدم موجودگی، وی آئی پی نقل و حمل اور مذہبی / سیاسی جلوسوں اور احتجاج کے باعث سڑکیں بند ہونے کا سوچیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ کراچی آئیں اور ٹریفک جام میں پھنسے بغیر سفر کر سکیں۔ اسلام آباد سے آئے میرے ایک عزیز دوست کو رات 4 بجے شاہراہ فیصل پر ٹریفک جام میں پھنسننے کا ’شرف‘ حاصل ہوا جبکہ میں تو روزانہ ہی ایسی صورتحال برداشت کرتی ہوں۔
جب رونے ، چلانے اور برا بھلا کہنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو میں نے متبادل راستوں کی تلاش شروع کردی۔ ایک مناسب راستہ ملا تو کچھ دن سکون سے گزرے لیکن ایک روز اس راستے کو بھی کھود دیا گیا۔ میں نے پھر دوسرا راستہ نکال لیا لیکن اسے بھی ایک ہفتے بعد سیوریج لائن کی وجہ سے کھود دیا گیا۔ میں نے ایک اور بار متبادل راستہ تلاش کیا لیکن پھر وہی دھات کے تین پات۔ کُل ملا کر میں نے چھ متبادل رستے اختیار کیے مگر سب ہی کو جلد یا بدیر ازسرنو تعمیر کی وجہ سے بند کردیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت میرے ہی پیچھے پڑی ہوئی ہے اور میرے راستوں میں رکاوٹیں پیدا کر کے مجھ سے کسی بات کا انتقام لے رہی ہے۔ بات اس حد تک بڑھ گئی کہ میرے عزیز و اقارب نے مجھے سڑکوں کے لیے ’پنوتی‘ قرار دے دیا اور اپنے گھر آنے سے بھی منع کردیا کہ کہیں ان کے گھر جانے والا رستہ بھی میری وجہ سے نہ کھود دیا جائے۔
میں چونکہ اب ایسی صورتحال سے نمٹنے کی ماہر ہوچکی ہوں، اس لیے غور و خوص اور اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں ان لوگوں کے لیے چند مشورے دینا چاہوں گی جو میری طرح روز ہی گاڑیوں کے بے ہنگم ہجوم سے مڈبھیڑ کرتے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ شہر قائد کے علاوہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ٹریفک جام ہوتا ہی ہے اس لیے دیگر لوگ بھی ان تجاویز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
رش کے اوقات میں باہر نکلنے سے پہلے قضاء حاجت سے فارغ ہو لیں۔ خاص کر اگر آپ کے ساتھ بچے ہیں تو ان سے بھی یہ عمل کروائیں۔
کھانے پینے کا ہلکا پھلکا سامان ساتھ رکھیں۔ ٹریفک جام کی صورت میں یہ چیزیں نہ صرف آپ غصے کو کنٹرول کریں گی بلکہ آپ کو اپنے ہی جیسے دیگر مظلوم ڈرائیوروں سے دوستی کرنے اور مشترکہ غم بانٹنے کر ہلکا کرنے کا بھی موقع دیں گی۔
ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں کی طرف دیکھ کر ٹیڑھے میڑھے منہ بنانے، اپنا سر دھننے اور منہ سے اول فول بکنے سے بہتر ہے کہ دور دراز رہنے والے کسی عزیز یا دوست کو فون ملا کر گپ شپ کرلیں۔
دفتری کاموں کی تھکن اور پھر ٹریفک جام مل کر کاہلی اور سستی کی شکل میں آپ پر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور آپ کو گھٹن یا نیند کے خمار میں مبتلا کرسکتے ہیں، اس لیے اپنے ساتھ پانی کی بوتل ضرور رکھیں۔
اگر آپ تھکے ہوئے ہیں اور رات کے وقت ٹریفک جام میں پھنسے ہیں تو دھیمی موسیقی سے پرہیز کریں اور اپنے دماغ کو بیدار رکھنے کے لیے کسی سے گفتگو کریں۔
اگر آپ کو گاڑی چلاتے ہوئے مشکل پیش آ رہی ہے یا گاڑی میں کسی خرابی کا احساس ہورہا ہے تو سڑک کے بائیں طرف گاڑی چلائیں۔ اگر گاڑی بار بار رک رہی ہے تو اسے دیگر گاڑیوں کے سیلاب سے نکال کر محفوظ جگہ پر لے آئیں۔
خدانخوانستہ اگر آپ کی گاڑی کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو سب سے پہلے گاڑی کو ایک کونے پر لے جائیں اور پھر دیکھیں کہ کیا اور کتنا نقصان ہوا ہے۔ یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
ہمیشہ اپنے سفر کی منصوبہ بندی کریں اور متبادل راستوں کی معلومات رکھیں۔
اگر منزل پر کسی متعین وقت میں پہنچنا ہے تو بہتر ہے کہ سفر کے لیے 20-30 منٹ اضافی رکھیں اور اسی کے حساب سے سفر کا آغاز کریں۔
ٹریفک جام کا مسئلہ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے لہذا صبر سے کام لیں اور احتیاط سے گاڑی چلائیں۔ اکثر شہروں کے مضافات میں بہت سی خالی سڑکیں ہوتی ہیں، انہیں ڈھونڈیں اور وہاں اپنے اندر کے لیوس ہیملٹن کو جگائیں۔