سوزوکی کو 1.16 ارب روپے کے نقصان کا سامنا
سوزوکی کو ستمبر 2019ء میں مکمل ہونے والی سہ ماہی میں 1.16 ارب روپے کے بھاری خسارے کا سامنا کرناپڑا، جو بنیادی طور پر گاڑیوں کی فروخت میں ہونے والی بڑی کمی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو دی گئی رپورٹ کے مطابق کمپنی نے اچھا وقت بھی گزارا جیسا کہ انہوں نے پچھلے سال کے اسی عرصے میں 94.8 ملین روپے کا بڑا منافع ریکارڈ کیا۔ حیران کن طور پر جولائی تا ستمبر 2019ء کی سہ ماہی میں خسارہ فی حصص 14.11 روپے تھا جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں یہ 1.15 روپیہ فی حصص کی آمدنی تھی۔ آٹو سیکٹر کی سست حالت کو دیکھتے ہوئے ایسے نتائج کی توقع کی جا رہی تھی۔
سوزوکی نے اِس عرصے میں 232.1 ملین روپے کا کُل خسارہ بھی ریکارڈ کیا جبکہ پچھلے سال یہ 1.69 ارب روپے کا منافع تھا۔
پاک سوزوکی کی آمدنی بھی پچھلے سال کے 89.9 ملین روپے کے مقابلے میں اس سال 44.6 فیصد کم ہوکر 49.8 ملین روپے تک پہنچ گئی ہے۔ مزید برآں پاک سوزوکی کے حصص کی قیمت اس عرصے میں 2.54 روپے گری ہے۔ واضح رہے کہ مجموعی طور پر آٹو سیکٹر کی سیلز میں جولائی تا ستمبر 2019ء کے دوران سال بہ سال کے لحاظ سے 67 فیصد کمی آئی ہے۔ کمپنی کو ویگن آر کی فروخت میں تیزی سے آنے والی کمی کی وجہ سے زبردست دھچکے کا سامنا کرنا پڑا کہ جو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 72 فیصد کم ہوئی۔
ویگن آر کو مقامی شعبے میں نئی 660cc کی آلٹو متعارف کروائے جانے کے بعد سے سیلز کے معاملے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صارفین گزشتہ چند مہینوں میں نئی گاڑی کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ پاک سوزوکی کے تمام ماڈلز کی فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ آلٹو نے اپنے آغاز کے بعد ایک مہینے میں سب سے زیادہ فروخت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کمپنی نے ستمبر 2019ء میں آلٹو کے 4,924 یونٹس فروخت کیے، جبکہ مالی سال 2019-20ء کی پہلی سہ ماہی میں اب تک 12,943 یونٹس فروخت کیے جا چکے ہیں۔ آلٹو سے ہٹ کر کمپنی نے باقی تمام ماڈلز کے کُل 10,204 یونٹس فروخت کیے، جو لوکل سیکٹر میں نئی ہیچ بیک کی زبرد ست آمد کو ظاہر کرتا ہے۔
آٹو سیکٹر پچھلے چھ ماہ سے سخت حالات سے دوچار ہے۔ اس سب کا آغاز امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے آنے والی کمی سے ہوا، جس نے آٹو مینوفیکچررز کو مجبور کیا کہ وہ متعدد بار اپنی قیمتوں پر نظر ثانی کریں۔
ایک سال تک مقامی کرنسی کی قدر گرنے کے بعد گاڑیوں کی قیمتیں اب 12 ماہ پہلے کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد زیادہ ہیں۔ آٹو سیکٹر کی موجودہ حالت میں حکومت کی جانب سے لگائے گئے ایڈیشنل ٹیکس اور ڈیوٹیوں کا بھی ہاتھ ہے۔
ہماری طرف سے اتنا ہی، اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔