کیا پاکستان الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقلی میں کامیاب ہو جائے گا؟

0 372

بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کے لیے دنیا آہستہ آہستہ الیکٹرک کاروں کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ عام انجن سے ہونے والے دھوئیں کے اخراج کی بدولت فضائی آلودگی کے مضر اثرات بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور دنیا کو ادراک ہو گیا ہے کہ ان دھواں نکالتی مشینوں کا کوئی متبادل ہونا چاہیے۔ صنعتی اخراج کے علاوہ آٹوموبائل انڈسٹری بھی ماحول کو آلودہ کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری زمین اب آلودہ ہو چکی ہے اور اس وجہ سے انسان ماحول کی زد پر ہے۔ ماحول کو بچانے اور اُبھرتی ہوئی صنعت سے پیسہ بنانے کے لیے دنیا بھر کے کئی معروف آٹو مینوفیکچررز الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ایک قدم آگے رہنے کے خواہش مند ہیں۔ بلاشبہ کچھ عرصے بعد ہی ہر ملک اس نئی ٹیکنالوجی پر منتقل ہو جائے گا، جو نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ سخت مسابقت کے ماحول میں آٹو انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا طریقہ بھی ہے۔ چند مہینے پہلے پاکستان الیکٹرک کاریں متعارف کروانے کے منصوبے پر تنِ تنہا تھا۔ عمران خان کی بطور وزیر اعظم آمد نے الیکٹرک انڈسٹری کی جانب منتقلی پر غور کرنے کے لیے ایک بڑا کام کیا۔ وزیر اعظم دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے اور دھوئیں سے پاک گاڑیوں کی جانب منتقلی کے خواہشمند ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کو ایک قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی بنانے کا بھی حکم دیا جس کی ابتدائی منظوری عمران خان نے دی۔ البتہ اسے اب بھی حتمی منظوری کے لیے کابینہ کے روبرو پیش کرنا باقی ہے۔ 

قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی ابتدائی مرحلے میں اگلے پانچ سال کو ہدف بناتی ہے کہ جس میں اس کا ہدف 1,00,000 الیکٹرک کاریں، جیپیں اور چھوٹے ٹرک فروخت کرنا ہے۔ طویل المیعاد منصوبوں میں 2030ء تک 9,00,000 یونٹس فروخت کیے جائیں گے۔ 2040ء تک ملک میں فروخت ہونے والی تمام گاڑیوں کا 90 فیصد الیکٹرک گاڑیاں ہوں گی۔ پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری پہلے ہی اس پالیسی کی مخالفت کر چکی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ پالیسی میں مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کے بجائے Completely Built Units یعنی CBUs کی درآمد مقامی صنعت پر منفی اثر ڈالے گی۔ بلاشبہ، پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ کلائمٹ رِسک انڈیکس (CRI) کہتا ہے کہ پاکستان 1998ء سے 2017ء کے درمیان متاثرہ ممالک میں 8 ویں نمبر پر ہے۔ ہر سال ہزاروں افراد سانس کے کسی نہ کسی مرض کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہوا کا ناقص معیار ذہنی تناؤ کو بڑھاتا ہے کہ جس سے سڑکوں پر حادثات جنم لیتے ہیں اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ 

ترقی یافتہ ممالک میں مرسڈیز بینز، ٹویوٹا، ہونڈا، فوکس ویگن، نسان وغیرہ جیسے کئی آٹو مینوفیکچررز پہلے ہی مارکیٹ میں الیکٹرک کاروں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ مرسڈیز ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے منصوبے کے ساتھ ساتھ 2030ء تک بیٹری سیل خریدنے میں 22.75 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ٹویوٹا 2020ء کے اوائل تک 10 سے زیادہ الیکٹرک گاڑیوں کے ماڈلز پیش کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ جاپانی آٹومیکر پہلے ہی دنیا بھر کی کار مارکیٹوں میں ہائبرڈ ماڈلز پیش کرنے میں سب سے آگے ہے۔ البتہ اس کی الیکٹرک گاڑیاں سب سے پہلے چین میں قدم رکھیں گی۔ کمپنی 2025ء تک اپنی لائن اپ کے ہر ماڈل کو میں کسی نہ کسی طری کی electrification کرے گی۔ 13 ارب ڈالرز کی کُل سرمایہ کاری میں سے نصف صرف بیٹریاں بنانے کے لیے ہوگی۔ 

ماحول دوست گاڑیوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے ناروے 2025ء تک روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں سے چھٹکارا پا لے گا۔ فرانس اور برطانیہ بالترتیب 2040ء اور 2050ء تک مکمل الیکٹرک بننے کا ہدف رکھتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان جیسے ملک میں ٹرانسپورٹیشن کا شعبہ فضائی آلودگی کے مسئلے کو گمبھیر بنا رہا ہے کہ جو کُل ماحولیاتی مسائل کے 43 فیصد کا سبب ہے۔ حکومت کی جانب سے الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کاربن اخراج کو کم کرنے میں مدد دیں گے اور جو ایسی گاڑیاں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں انہیں زمین کے ماحول کو بچانے میں اپنا انفرادی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں لازماً خریدنا چاہیے۔ ملک میں ماحولیات کی صورت حال کا اندازہ ٹریفک وارڈنز کی طبّی حالت سے لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً سبھی کسی نہ کسی سانس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 

الیکٹرک گاڑیاں ماحول کو بہتر بنانے کے علاوہ دیگر کئی فوائد بھی رکھتی ہیں جیسا کہ درآمدات میں کمی اور ملک میں تیل کی طلب میں کمی۔ محض تیل کی کم طلب سے ہی سالانہ 2 ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ عین اسی وقت الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروانے میں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ ایسی گاڑیوں کی لاگت ہوگی کہ جو ابتدائی مرحلے میں خریدار کو ادا کرنا ہوگی۔ اوریجنل ایکوئپمنٹ مینوفیکچررز (OEMs) کے مطابق ایک عام ایندھن سے چلنے والی گاڑی کے مقابلے میں الیکٹرک کار کا انتخاب تقریباً 80 فیصد مہنگا پڑے گا۔ پاکستان میں آٹو انڈسٹری کے ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کو ماحول دوست گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات ایک ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں، جتنا نظر آتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کرنا، عام ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں پر کچھ اضافی ٹیکس لگا نا اور الیکٹرک گاڑیوں کے صارفین کو ٹیکس پر رعایت دینا اس کے چند پہلو ہو سکتے ہیں۔ الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنوں کا قیام بھی ایک چیلنج ہے جبکہ ملک ویسے ہی بجلی کے بحران کا شکار رہتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیاں اس طرح ڈیزائن ہونی چاہئیں کہ صارفین جہاں بھی گاڑی پارک کرے وہاں انہیں چارج کر سکے، جیسا کہ گھر، دفتر یا بازار میں۔ ان گاڑیوں کی چارجنگ کا وقت بھی ایک اور مسئلہ ہے جو اس وقت تقریباً چھ گھنٹے لیتی ہیں، البتہ متعدد کمپنیوں نے اس دورانیے کو کم کرنے پر کام کیا ہے تاکہ وقت کو 10 سے 20 منٹ تک لایا جائے اور اس کام کو مؤثر کیا جائے۔ مزید یہ کہ آٹو انڈسٹری کے واقفان حال کو بھی الیکٹرک وہیکل پالیسی تیار کرنے کے پورے عمل میں شامل ہونا چاہیے بجائے اس کے کہ سارا معاملہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی پر چھوڑ دیا جائے۔ 

اس وقت وزارت کی جانب سے تیار کردہ مسوّدے میں صاف توانائی کی گاڑیوں جیسا کہ ہائبرڈ گاڑیوں کی جانب منتقلی کے پہلو شامل نہیں۔ ان گاڑیوں کو چارجنگ اسٹیشن کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ ایندھن کی کھپت کو 30 فیصد تک کم کرتی ہیں۔ اس کے بعد پلگ-اِن ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیاں آتی ہیں جو ایندھن کی کھپت کو مزید کم کرتی ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک ہائبرڈ سے پلگ ان ہائبرڈ گاڑیوں کی جانب منتقلی شروع کر چکے ہیں اور اس لیے پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ان گاڑیوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ تیل کی طلب کو کسی حد تک کم کرنے میں مددگار ہیں۔ اصل غور طلب ہدف الیکٹرک گاڑیوں کی جانب منتقلی کو ہونا چاہیے۔ 

کچھ ایسے ادارے ہیں جو پہلے ہی EV پالیسی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں تاکہ وہ اس کے حساب سے الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار یا انہیں درآمد کرنے کے منصوبوں کو شروع کر سکیں۔ SZS اور رحمت گروپ ان میں سے دو ہیں جو ملک میں اپنے پیداواری پلانٹس بنانے کے لیے تیار ہیں۔ کمپنیاں پہلے ہی چینی اداروں کے ساتھ مفاہمت کی چند یادداشتوں پر دستخط کر چکی ہیں۔ الیکٹرک انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو 1000cc کے برابر کاروں کو ہدف بنانے کی ضروری ہوگی کیونکہ یہ پاکستان میں 75 فیصد مارکیٹ شیئر کی حامل ہیں۔ ایک مرتبہ طلب بڑھنے کے بعد پیداواری حجم کو بڑھایا جا سکتا ہے اور قیمتیں مناسب حد تک آ جائیں گی۔ EVs بلاشبہ طویل میعاد میں روایتی گاڑیوں سے زیادہ سستی پڑتی ہیں۔ 

پاکستان کی آٹو انڈسٹری جدّت اختیار کرنے میں ہمیشہ ہچکچاتی ہے۔ امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا وژن اسے حقیقت کا روپ دے گا اور بحیثیت قوم اپنا ماحول بچانے کے لیے ہمیں عام ایندھن جلانے والی گاڑیوں کے متبادل کے طور پر انہیں منتخب کرنا چاہیے۔ قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی کو جلد ہی حتمی صورت مل جائے گی، اس لیے امید ہے کہ پاکستان میں الیکٹرک کاروں کا حقیقت پر مبنی روشنی مستقبل ہوگا۔ 

ہماری طرف سے اتنا ہی، اس بارے میں مزید کوئی پیشرفت ہونے پر اپڈیٹس کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔ اپنے تبصرے نیچے پیش کیجیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.