کیا بھارت (واقعی) پاکستان سے آٹو ریس جیت رہا ہے؟

0 172

اپنے قیام پر ہی جدا ہو جانے والے سخت گیر حریف بارہا جنگ کے میدانوں میں ٹکرائے ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں پر بھی دونوں کے سخت مقابلے ہوئے۔ لیکن ایک اور شعبہ ہے جس میں دونوں کا مقابلہ ہو رہا ہے لیکن عوام کی نظریں کچھ اوجھل ہے۔

بھارتی آٹو سیکٹر بظاہر خوبصورت لیکن ہرچمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

بظاہر بھارت کہیں آگے ہے۔ یہ جرمنی کی جگہ چوتھی سب سے بڑی آٹومارکیٹ بن چکا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ جلد ہی جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیسری سب سے بڑی آٹومارکیٹ بن جائے گا۔ بھارت میں 2018ء میں کمرشل اور مسافر گاڑیوں کی فروخت میں 8.3 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ تمام قابلِ تصدیق اعداد و شمار ہیں لیکن بھارت کے آٹوموٹو سیکٹر پر قریب سے نظر ڈالیں تو سب اچھا نہیں ہے۔

نئے افراد کے لیے یہ کہ بھارتی آٹوموٹر سیکٹر گاڑیاں بنانے والے غیر ملکی اداروں کے لیے اتنا پرکشش نہیں کیونکہ بھارت میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہیں۔ واضح رہے کہ مسافر کاروں کی بھارتی مارکیٹ 3 ملین سے زیادہ بڑی ہے۔ پھر بھی آؤڈی، BMW اور مرسڈیز سال بھر میں بھارت میں 20,000 سے کم گاڑیاں بیچتے ہیں۔ بھارت میں پیسنجر کاروں کی اوسط قیمتِ فروخت 7,000 ڈالرز ہے، جو ترقی یافتہ ممالک میں مسافر کاروں کی قیمت کی ایک تہائی ہے۔ ایک اور عنصر جو بھارت کو غیر ملکی آٹومیکرز کے لیے غیر متاثر کن بناتا ہے وہ ماروتی سوزوکی ہے، جو نومبر 2018ء کے مطابق 54 فیصد مارکیٹ پر قابض ہے۔

بھارت نے ہو سکتا ہے جرمنی کو شکست دے دی ہو لیکن 2018ء میں اس کی موٹرائزیشن شرح 27/1000 مسافر کاریں تھی جبکہ جرمنی میں 570/1000 جرمن مسافر کاریں رکھتے ہیں۔ چین میں موٹرائزیشن کی شرح 145/1000 مسافر کاریں ہے۔ اس فرق کی ایک وجہ قوتِ خریداری بھی ہے۔ بھارت میں مڈل کلاس چین اور جرمنی سے چھوٹی ہے۔

گاڑی کے ایک عام بھارتی خریداری کے حوالے سے ایک مخصوص پہلو ہے جس سے بسا اوقات صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ ٹاٹا نینو، جس کی قیمت 1,00,000 روپے تھی اور اسے “دنیا کی سستی ترین کار” کہا جا رہا تھا، صارفین کی جانب سے نہیں خریدی گئی تھی۔ امریکی اصطلاح میں یہ ماڈل “ tanked” یعنی بری طرح ناکام ہوگیا۔ نسان نے اس سے سبق سیکھا اور اپنے سستے برانڈ ڈاٹسن کو “اُبھرتے بھارت کی پسند” کے طور پر متعارف کروایا۔ بھارت میں برانڈنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

سورج (بھارت کے) مغرب سے نکلتا ہے

بھارت سے مغرب کی سمت جائیں تو پاکستان نہ ہی دنیا کا چوتھی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور نہ ہی مستقبلِ قریب میں موٹرائزیشن کی شرح میں جاپان کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس کی موٹرائزیشن شرح بھارت سے بھی کم یعنی 17/1000 ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے صور تحال مارو یا مر جاؤ والی نہیں۔

جب معاملہ غیر ملکی آٹومیکرز کا آتا ہے تو پاکستان اور بھارت بالکل الٹ ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان بیرونِ ملک سے بھارتی سرمایہ کاری حاصل کرتا ہے۔ آٹوموٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-2021ء نئے اداروں (کار مینوفیکچررز) کو ٹیکس فوائد پیش کرتی ہے۔ ہیونڈائی، کِیا اور سینگ یونگ (کوریائی)، مع فوکس ویگن ، رینو (رینالٹ) اور نسان پاکستان میں اپنی گاڑیاں اسمبل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مزید یہ کہ گروپ رینو اور الفُطیم پاکستان میں رینو کاریں لائیں اور بنائیں گے اور فروخت کریں گے۔

گزشتہ 5 سالو ں میں آٹو سیکٹر غیر معمولی طور پر بڑھا ہے۔ فروخت میں اضافہ ہوا ہے جو سرمایہ کاری اور توسیع کا سبب بنی ہے۔ حکومت آٹوموٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-2021ء کے ذریعے امید کرتی ہے کہ وہ بڑی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کو توڑدے گی، مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں کا معیار بڑھائے گی اور گاڑیوں کی قیمتوں کو کم کرے گی۔

ایک اور پہلو، جو گاڑی خریدنے کے تجربے کو نسبتاً آسان بناتا ہے وہ کار فائنانسنگ کا آپشن ہے۔ اس نے بھی ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ کیا۔ پاکستان میں کار فائنانسنگ کم شرحِ سود کی وجہ سے زیادہ آسان ہے۔

سرزمینِ پاک میں سب اچھا نہیں؟

یہ ایک کھلا راز ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس خالی خزانہ ہے۔

موجودہ اور گزشتہ حکومت کو جس دہری مشکل کا سامنا تھا وہ یہ کہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو خالی کیے بغیر آٹو سیکٹر میں حرکت کس طرح پیدا کی جائے۔ حکومت کے پاس یا تو غیر ملکی زرِ مبادلہ پر انحصار کے بدلے آزادانہ طریقہ اپنانے کا انتخاب ہے کہ جہاں وہ لبرل امپورٹ پالیسی کی پیروی کرے، مقابلہ تخلیق کرے۔ متبادل کے طور حکومت آٹو درآمدات کو محدود کر سکتی ہے، جو صارفین کے انتخاب کو محدود کرے گا۔ تازہ ترین SRO 52(1) 2019 کے اجراء کے ساتھ لگتا ہے کہ حکومت نے مؤخر الذکر طریقہ اپنایا ہے۔

ایک مثبت منظرمہ – ہنسی خوشی اختتام

بھارت میں موٹرائزیشن کی شرح پاکستان سے زیادہ ہو سکتی ہے (بلاشبہ سیب اور نارنجی کا تقابل ہے یہ)، لیکن پاکستان کی موٹرائزیشن شرح فی کس آمدنی میں اضافے کے ساتھ بڑھنا متوقع ہے۔ پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں فی کس آمدنی 1,629 ڈالرز ہے۔ پلاننگ کمیشن کی پیش گوئی ہے کہ فی کس آمدنی 2025ء تک 4,200 ڈالرز تک جائے گی۔ اس لیے منظرنامہ بہت مثبت ہے۔

ایسی ہی دیگر آٹوموٹو خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.