پاکستانی مارکیٹ میں چین کے سستے ٹائروں کا قبضہ
چینی مصنوعات پاکستانی مارکیٹ میں ہر جگہ موجود ہیں۔ آپ کو پاکستان میں تقریباً ہر پروڈکٹ پر ہیں “میڈ اِن چائنا” لکھا نظر آئے گا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق چین پاکستان کی ٹائر مارکیٹ پر بھی چھایا ہوا ہے۔ چینی ٹائروں نے پاکستان میں 85 فیصد کا مارکیٹ شیئر حاصل کر لیا ہے، جو صرف دو سال میں 45 فیصد سے بڑھ کر یہاں تک پہنچا ہے۔
2018ء میں چین کے کار ٹائرز پاکستان میں مارکیٹ شیئر کا 40 فیصد رکھتے تھے۔ آج یہ شرح بڑھتے ہوئے 85 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب چینی لائٹ ٹرک ٹائرز 2018ء میں 30 سے 40 فیصد کا حصہ رکھتے تھے اور 2021ء میں یہ شرح بڑھتے ہوئے 65 سے 70 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح چین کے ہیوی ٹرک اور بس ٹائرز کا مارکیٹ شیئر بھی دو سال پہلے کے 30 سے 40 فیصد کے مقابلے میں اب 75 فیصد پر کھڑا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان ٹائر امپورٹرز اینڈ ڈیلرز ایسوسی ایشن (PTIDA) کے سابق چیئرمین عظیم کے یوسف زئی نے میڈیا کو بتایا کہ “کئی ڈیلرز کے پاس یکدم اضافہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جو مارکیٹ کو چینی ٹائروں سے بھر رہے ہیں۔”
یوسف زئی نے یورپی، کوریائی، تھائی اور امریکی ٹائروں کی قیمتوں میں اضافے کو بھی چینی ٹائروں کے مارکیٹ شیئر بڑھنے کی وجہ قرار دیا۔
پاکستان میں ٹائروں کی اسمگلنگ
ٹائر مارکیٹ پر گفتگو کرتے ہوئے یوسف زئی نے پاکستان میں ٹائر اسمگلنگ کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی۔ پاکستان میں ٹائروں کی اسمگلنگ سالوں سے ٹائروں کی قانونی تجارت کو متاثر کر رہی ہے۔ اگر مسافر گاڑیوں کے ٹائروں کی طلب 4.25 ملین ٹائرز سالانہ ہے تو قانونی تجارت صرف 1.7 ملین ہی کی طلب پوری کر سکتی ہے جبکہ مقامی صنعت 1.19 ملین ٹائر فراہم کرتی ہے، اس سے تقریباً 5 لاکھ ٹائروں کی کمی ہوتی ہے کہ جو اسمگلنگ سے پوری ہوتی ہے،” سابق چیئرمین PTIDA نے کہا۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ٹائروں کی غیر قانونی آمد کا سلسلہ 50 سے 60 فیصد سے گھٹتے ہوئے اب 20 فیصد رہ گیا ہے۔ یوسف زئی نے میڈیا کو بتایا کہ لنڈی کوتل بارڈر کی کڑی نگرانی ملک میں ٹائروں کی اسمگلنگ کے کاروبار کو دھیما کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ البتہ اسمگل شدہ ٹائر اب بھی چمن بارڈر کے ذریعے لوکل مارکیٹ میں کسی نہ کسی طرح پہنچ رہے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔
آپ پاکستان میں ٹائر خرید سکتے ہیں، صرف پاک ویلز پر۔