جب ہم 1947 سے اب تک کے پاکستان کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ صرف لوگ، شہر، اور مناظر ہی نہیں بدلے بلکہ ہماری سڑکوں نے بھی ایک کہانی بیان کی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں کچھ گاڑیاں صرف ذرائع آمدورفت نہیں رہیں بلکہ وہ ایک دور کی پہچان بن گئیں، جنہوں نے ہماری روزمرہ زندگی کو نئی شکل دی، ہمارے خوابوں کو پروان چڑھایا اور بعض اوقات تو ایک پورے عہد کی تعریف کی۔
آئیے، آج انہی چار لیجنڈ گاڑیوں کی تاریخ میں ایک یادگار سفر کرتے ہیں۔
سوزوکی مہران (The Boss)
1980 کی دہائی کے اواخر میں لانچ ہونے والی سوزوکی مہران کا مقصد سجیلا ہونا یا پُر آسائش ہونا نہیں تھا۔ اس میں نہ تو کوئی فینسی گیجٹس تھے، نہ طاقتور انجن اور نہ ہی خوبصورت ڈیزائن۔ لیکن اس نے جو کچھ پیش کیا، وہ زیادہ گہرا تھا۔ وہ تھا سستی قیمت اور سادگی۔ ان دو خوبیوں نے اسے ایک قومی پسندیدہ گاڑی بنا دیا، جو ہر عام پاکستانی کی دل کی آواز بن گئی۔
کئی دہائیوں تک، یہ درمیانے طبقے کے خاندانوں کے لیے پہلی گاڑی کا سب سے بہترین انتخاب رہی۔ مکینکس اسے پسند کرتے تھے کیونکہ اس کی مرمت آسان تھی، اسپیئر پارٹس سستے ملتے تھے اور یہاں تک کہ کوئی بھی سڑک کنارے بیٹھا استاد ایک پانے اور تھوڑی محنت سے اسے ٹھیک کر سکتا تھا۔
یہ صرف ایک گاڑی نہیں تھی بلکہ لاتعداد گھرانوں کے لیے نقل و حرکت اور مواقع کی علامت بن گئی۔ آج بھی “مہران” کا نام فیملی ٹرپس، شادی کے جلوسوں، اور والد کے ساتھ ڈرائیونگ سیکھنے کی ان اعصاب شکن یادوں کو تازہ کر دیتا ہے۔ مگر اب پاک سوزوکی نے اس چھوٹی گاڑی کی جگہ ایک نئی گاڑی “آلٹو” متعارف کروا دی ہے۔
ٹویوٹا کرولا – قابلِ اعتماد ساتھی
اگر قابلِ بھروسہ ہونے کا کوئی دوسرا نام پاکستان میں ہوتا تو وہ “کرولا” ہوتا۔ 1970 کی دہائی سے لے کر آج تک، یہ سیڈان شہروں میں رہنے والوں سے لے کر دیہاتوں کے ڈرائیوروں تک سب کی پسندیدہ رہی ہے۔ اس کی مضبوط بناوٹ، ایندھن کی بچت، اور کچی سڑکوں پر چلنے کی صلاحیت نے اسے ایک ایسی ساکھ دی جسے کوئی نہیں ہلا سکا۔
ٹیکسی بیڑے کے لیے یہ ایک “ورک ہارس” تھی۔ خاندانوں کے لیے یہ ایک محفوظ اور آرام دہ سواری تھی، اور کار کے شوقین افراد کے لیے یہ سجیلی اور کارکردگی کے لحاظ سے مناسب تھی۔ کرولا کی ری سیل ویلیو ایک لیجنڈ بن گئی تھی — آپ اسے کئی سال تک چلانے کے بعد بھی کم نقصان کے ساتھ بیچ سکتے تھے۔
کئی طریقوں سے، یہ پاکستانیوں کی ایک ڈیفالٹ گاڑی بن گئی، جس نے نسلوں اور علاقوں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم کیا۔
بیڈفورڈ ٹرک – سڑک کا بادشاہ
جدید لاجسٹکس فلیٹس کے آنے سے پہلے بیڈفورڈ ٹرک ہوا کرتے تھے — یہ رنگ برنگے دیو پیکر ٹرک تھے جنہوں نے کئی دہائیوں تک پاکستان کی شاہراہوں پر راج کیا۔ یہ ٹرک صرف گاڑیاں نہیں تھے بلکہ یہ چلتے پھرتے فن پارے تھے۔ ان پر کی جانے والی ٹرک آرٹ صرف سامان نہیں بلکہ ثقافت بھی ساتھ لے جاتی تھی۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں متعارف ہونے والے، بیڈفورڈ ٹرک مال برداری کی ریڑھ کی ہڈی بن گئے۔ کراچی کی بندرگاہوں سے لے کر گلگت بلتستان کی دور دراز وادیوں تک، انہوں نے اناج سے لے کر تعمیراتی سامان تک سب کچھ پہنچایا۔
ان کی پائیداری اور آسان دیکھ بھال کا مطلب یہ تھا کہ پیداوار بند ہونے کے بعد بھی یہ چلتے رہے۔ آج بھی، شاہراہ پر کسی ایک بیڈفورڈ ٹرک کو دیکھنا کسی پرانے دوست سے ملنے جیسا محسوس ہوتا ہے — یہ ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جب یہ سجے ہوئے طاقتور ٹرک مضبوطی، رنگوں اور لچک کی علامت تھے۔ ان کی میراث آج بھی زندہ ہے اور یہ ان کی پائیدار روح کا ثبوت ہے۔
ہنڈا سی ڈی 70 – محنت اور روزمرہ زندگی کی علامت
اگر مہران عوام کی کار تھی، تو ہونڈا سی ڈی 70 عوام کی موٹرسائیکل ہے — اور آج بھی ہے۔ 1980 کی دہائی میں پہلی بار متعارف ہونے والی، یہ معاشی، قابلِ بھروسہ اور تقریباً ناقابلِ شکست ہونے کی وجہ سے فوری طور پر ہٹ ہو گئی۔