سٹی ٹریفک پولیس (CTP) نے ستمبر 2018 میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) کے تعاون
سے لاہور میں ای-چالان سسٹم متعارف کروایا تھا۔ نیا سسٹم کیمروں کی مدد سے ٹریفک قوانین کی
خلاف ورزی کا پتہ چلاتا ہے اور پھر چالان خلاف ورزی کرنے والوں کے گھر بھیجتا ہے۔ لاہور
ہائی کورٹ اس ای-چالان سسٹم سے خوش نہیں ہے اور اس حوالے سے سٹی ٹریفک پولیس کو طلب
کر لیا ہے۔
عوام الیکٹرانک چالان کے آغاز کے سے ہی اس کے حوالے سے شکایات کر رہے ہیں۔ ناقص ای-
چالان سسٹم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کئی پٹیشنز پر دستخط کیے گئے۔ ایسی ایک پٹیشن نے
جسٹس شمس محمود مرزا کی توجہ حاصل کی، جنہوں نے مسئلے کی جڑ کا پتہ چلانے کا فیصلہ کیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج نے سرکاری مشیر سے ای-چالان سسٹم کی درستگی کے بارے میں پوچھا۔
مایوس کن جواب میں سرکاری مشیر نئے ٹریفک ٹکٹنگ نظام کے حق میں کوئی بھی ثبوت پیش
کرنے میں ناکام رہے۔ مشیر نے جج کو بتایا کہ PSCA ای-چالان نظام لاہور ہائی کورٹ (LHC)
کے احکامات کے تحت عمل میں لایا۔ جسٹس مرزا نے مشیر کو بیان پیش کرنے کا حکم دیا کہ جس
میں LHC نے ای-چالان کے استعمال کی اجازت دی ہو۔
لاہور میں ای-چالان سسٹم
ای-چالان ایک ٹریفک خلاف ورزیوں کا الیکٹرانک ٹکٹ سسٹم ہے جو ٹریفک خلاف ورزی کا پتہ
چلانے کے لیے جدید آٹومیٹک وہیکل نمبر پلیٹ recognition (ANPR) کیمرے استعمال کرتا ہے۔
مثلاً زیادہ رفتار، ون-وے ٹریفک اور لین کی تبدیلی کے قوانین کی خلاف ورزیاں۔
ANPR کیمرے جو لاہور کی مختلف سڑکوں پر لگائے گئے ہیں، خلاف ورزی کرنے والے کی
گاڑی کی لائسنس پلیٹ پکڑتے ہیں۔ سسٹم اس تصویر کو ایک چالان کاغذ پر خلاف ورزی کی دیگر
تفصیلات کے ساتھ نکالتا ہے اور اسے گاڑی کے مالک کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دو سال کے دوران پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی (PSCA) نے لاہور میں 44 لاکھ سے زیادہ
چالان جاری کیے ہیں اور 339 ملین روپے کی ادائیگی حاصل کی ہے۔ ان 44 ملین ٹریفک خلاف
ورزیاں کرنے والوں میں سے 20 لاکھ 75 ہزار گاڑیوں کے مالکان، 22 لاکھ 90 ہزار موٹر سائیکل
سوار اور 85 ہزار کمرشل گاڑیاں چلانے والے تھے۔