پاکستان میں جعلی انجن آئلز کا کاروبار عروج پر
اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو امکان ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جعلی انجن آئل استعمال کیا ہوگا اور حیران کن بات یہ ہے کہ آپ کو اس کا علم بھی نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جعلی انجن آئل کی صنعت اتنی بڑی ہے کہ تقریباً ہر کار/بائیک/ٹرک کا مالک اس فراڈ کا شکار بن جاتا ہے۔ یہ صنعت اتنی بڑی ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
مثال کے طور پر، خاص طور پر لاہور میں، انجن آئل فروخت کرنے والی تقریباً پانچ میں سے تین دکانیں جعلی لبریکنٹس پیش کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ دکان دار کو بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں جعلی انجن آئل انڈسٹری کے طریقہ واردات پر ہم یہ ایک خصوصی دستاویزی تحریر پیش کر رہے ہیں۔ یہ مضمون مکمل تحقیق کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔
جعلی آئل انڈسٹری کی منظم کاروائیاں
فوٹو کریڈٹ: سما نیوزیہ صنعت بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے اور ملک بھر میں اس کے باقاعدہ آپریشنز جاری ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ایک منظم مافیا ہے اور اطلاعات کے مطابق حکام کی شمولیت کے ساتھ یہ مارکیٹ میں کام کرتے ہیں۔ مزید برآں، تقریباً ہر دکان دار جو آئل چینج کی خدمات پیش کرتا ہے اس نیٹ ورک سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ دکانیں استعمال شدہ انجن آئل اور خالی بوتلیں بیچتی ہیں جنہیں پھر صاف کر کے انہی بوتلوں میں دوبارہ پیک کر دیا جاتا ہے۔
جعلی انجن آئل انڈسٹری کیسے کام کرتی ہے؟ آئیے معلوم کریں!
مکینک کی دکانوں سے آئل کا حصول
سب سے پہلے، وہ استعمال شدہ انجن آئل حاصل کرتے ہیں۔ جب آپ آئل چینج کروانے کے لئے کسی دکان یا مکینک کے پاس جاتے ہیں، تو وہ آپ کے گاڑی کے پرانے آئل کو نکال کر نیا آئل ڈال دیتے ہیں۔ دکاندار وہ استعمال شدہ آئل جمع کر لیتا ہے۔ ہر ہفتے کے آخر میں ایک ٹرک ان دکانوں سے استعمال شدہ آئل جمع کرنے آتا ہے، جو تقریباً 70 روپے فی لیٹر کے حساب سے اس آئل کی قیمت ادا کرتا ہے۔ پھر وہی ٹرک استعمال شدہ آئل جعلی انجن آئل فیکٹریوں کو پروسیسنگ اور فروخت کے لئے پہنچا دیتا ہے۔
استعمال شدہ آئل کی صفائی
یہ فیکٹریاں پھر اس آئل کو پراسیس کرتی ہیں۔ تکنیکی طور پر، یہ پراسیسنگ نہیں ہوتی۔ ایک بار انجن آئل سیاہ ہو جائے، تو آپ اسے دوبارہ صاف نہیں کر سکتے کہ وہ بالکل نئے کی طرح ہو جائے۔
وہ آئل سے کچھ دھول کے ذرات نکال دیتے ہیں اور پھر آئل کو “ریڈکشن” نامی کیمیکل پراسیس سے گزارتے ہیں۔ آپ گوگل کر کے اس پورے پراسیس کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ کافی تفصیلی اور پیچیدہ ہے۔
سادہ الفاظ میں، یہ کیمیکل پراسیس آئل کو دوبارہ نئے جیسا دکھانے کے لیے ہوتا ہے، لیکن یہ صرف دکھاوا ہوتا ہے۔ جب آپ اسے اپنی گاڑی میں ڈالتے ہیں، تو یہ آپ کے انجن کو تباہ کر دیتا ہے۔ آئل آکسیڈائزڈ ہونے کے ساتھ ساتھ آلودگی سے بھرپور ہوتا ہے جو انجن کے پرزوں کو صرف 500-800 کلومیٹر چلنے کے بعد ہی نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
دکانوں کو جعلی آئل کی سپلائی
Stock Image
ان کے پاس ایک ہول سیلر ہوتا ہے جو صرف جعلی آئل ڈیل کے معاملے ڈیل کرتا ہے۔ وہ اپنے جعلی آئل کو ان ڈیلرز کو بیچتے ہیں، جو پھر یہ آئل دکانوں اور مکینکوں کو فراہم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دکاندار خود بھی اکثر لاعلم ہوتے ہیں کہ وہ ہول سیلرز سے جو لبریکنٹس خرید رہے ہیں وہ جعلی ہیں۔ نتیجے کے طور پر وہ ان مصنوعات کو صارفین کو فروخت کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ آئل 100 فیصد گارنٹی شدہ اصلی ہے۔ آخر میں، یہ صارفین ہیں جو اس دھوکہ دہی کی قیمت چکاتے ہیں۔
جعلی انجن آئل کو کیسے پہچانا جائے تاکہ آپ کے انجن کو نقصان نہ ہو؟
مسئلہ یہ ہے کہ اس مافیا کو بھی علم ہے کہ لوگ اب جعلی انجن آئل کی بوتلوں کی پہچان میں ماہر ہو گئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے، وہ اب اصلی بوتلیں استعمال کرتے ہیں۔
جب آپ دکان پر آئل چینج کروانے جاتے ہیں، اگر آپ دیکھیں کہ مکینک نیا آئل ڈالنے کے بعد خالی بوتل اپنے پاس رکھتا ہ، تو اگر آپ اس سے خالی بوتل دینے کا کہیں تو وہ آپ کو دینے سے ہچکچائے گا اور کہے گا کہ “باس آپ نے کیا کرنا ہے خالی بوتل کا، میں آپ کو دوسری بوتل دے دیتا ہوں اگر چاہیے تو”۔
یہ مکینک دراصل ان استعمال شدہ بوتلوں کو جعلی لبریکنٹ ریفائننگ فیکٹریوں کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ فیکٹریاں ان خالی اصلی بوتلوں میں اپنا جعلی انجن آئل ڈالتی ہیں۔ وہ بس اس میں ایک نئی سیل لگا دیتے ہیں، اور وہ سیل اتنی مستند ہوتی ہے کہ ماہر بھی فرق نہیں بتا سکتا۔
ہم آپ کو یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ اچھے اور برانڈڈ اسٹورز اور سرکاری تھری ایس ڈیلرشپ سے خریداری کریں۔