گاڑیاں ڈھونے والے غیر محفوظ ٹرالرز – لوکل آٹو انڈسٹری کے لیے ایک گمبھیر مسئلہ!
نئے برانڈز اور ماڈلز کی آمد کے ساتھ پاکستان میں کار انڈسٹری خوب پھل پھول رہی ہے۔ نتیجتاً نئی گاڑیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ ہر سال ایسی خبریں سامنے آتی ہیں کہ کوئی ٹریلر الٹ گیا جس کے نتیجے میں نئی نویلی گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک کار کیریئر الٹ گیا تھا اور اس کی خبریں میڈیا پر خوب آ رہی تھیں۔ عام طور پر یہ گاڑیاں ٹرانزٹ انشورنس رکھتی ہیں اور انشورنس کمپنیوں انہیں کوَر کرتی ہیں لیکن یہ مسئلہ صرف اس سے حل نہیں ہوتا۔
گاڑیاں ڈھونے والوں کا مسئلہ:
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ آخر ہے کیا۔ موجودہ کار ٹرانسپورٹرز اصل میں کنٹینر اٹھانے والے ٹرالرز ہیں جن میں کچھ موڈیفکیشنز کی گئی ہیں۔ عام ٹریلرز پر اوپر اور نیچے کے دو حصے بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف ٹریلرز طے شدہ لمبائی سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں بلکہ ان میں کئی گاڑیوں کو لے جانے کے لیے فلیٹ بیڈز کے دو لیول بھی کر دیے جاتے ہیں جو سیفٹی اور ٹرک چلانے دونوں لحاظ سے بہت خطرناک بات ہے۔
اس معاملے کی فزکس اور ڈائنامکس میں تو نہیں جا سکتے کہ اس سے یہ تحریر بہت طویل اور پیچیدہ ہو جائے گی۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو کسی بھی گاڑی کی اسٹیبلٹی کا انحصار اس کے زمین سے مرکزِ ثقل (COG) پر ہوتا ہے۔ گاڑی کا مرکزِ ثقل وہاں ہوتا ہے جس جگہ گاڑی کے پورے وزن کا توازن قائم ہو سکتا ہے، جب گاڑی پر وزن بڑھایا جائے تو اس کا مرکزِ ثقل تبدیل ہو جاتا ہے
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر پینورامک رُوف شامل کی جائے تو ایک ہی کمپنی اور ماڈل کی گاڑی اسی انجن اور ویسے ہی دیگر پرزوں کے ساتھ مختلف مرکزِ ثقل رکھتی ہے۔ یعنی گاڑی کا COG صرف سن رُوف/پینورامک رُوف شامل ہونے سے ہی مختلف ہو جائے گا۔ اس لیے کار کمپنیاں اپنی گاڑی کو ڈیزائن کرتے ہوئے ان عوامل کو ذہن میں رکھتی ہیں تاکہ گاڑی کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنایا جا سکے۔ گاڑی کے اسٹیبلٹی کنٹرول سسٹمز کو ایڈجسٹ، سسپنشنز کو اپڈیٹ، ٹریک کی چوڑائی اور دیگر کام کر کے اس مقصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔
گاڑی کے وزن کی اسٹیبلٹی:
گاڑی کی اسٹیبلٹی کا حساب لگانے کا وہیکل اسٹیٹک اسٹیبلٹی فیکٹر/SSF کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ فارمولا ہے SFF = T/2H۔ جہاں “T” کا مطلب ٹریک کی چوڑائی ہے یعنی دونوں ٹائروں کے مرکز کے درمیان ایکسل پر فاصلہ ہے۔ “H” کا مطلب ہے COG کی زمین سے اونچائی۔ COG کو جاننے کا ایک مکمل ریاضیاتی طریقہ ہے، اور اس کے لیے بہت سی پیمائش اور گاڑی کا وزن جاننے کی ضرورت پڑتی ہے، جب SFF کی ویلیو بڑھتی ہے تو گاڑی زیادہ مستحکم ہو جاتی ہے اور کم ہونے پر غیر مستحکم۔
SUVs کے معاملے میں SFF کی ویلیو کم رہتی ہے کیونکہ ان کا COG اوپر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی گاڑی کے اوپر وزن ڈالیں گے تو SFF تبدیل ہو جاتا ہے۔ سرکاری ادارے کسی بھی گاڑی کے الٹنے کا خطرہ جاننے اور سیفٹی ریٹنگ دینے کے لیے SFF کا استعمال کرتے ہیں۔
اب ہم جان چکے ہیں کہ مرکزِ ثقل کے زمین سے اوپر ہونے سے گاڑی کے الٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور یہ فارمولا کمرشل ٹرانسپورٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ٹرکوں کے معاملے میں تو یہ بہت ہی اہم ہے کیونکہ ان کا کام ہی وزن اٹھانا ہے۔ ٹرک الٹی سمت سے چلنے والی ہمیشہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ٹرکوں کی حرکت، استحکام اور سیفٹی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ٹرک خاص طور پر ٹریلر مخصوص وزن اٹھانے، زیادہ سے زیادہ وزن کی گنجائش، زیادہ سے زیادہ اونچائی، ٹرک کی چوڑائی لمبائی اور دیگر کئی پہلوؤں کا خیال رکھتے ہوئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ٹرانسپورٹز کو بھی ٹرکوں اور ٹریلرز میں بنیادی اور اہم سیفٹی فیچرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی آگے سے پیچھے کے علاوہ سائیڈ سے سائیڈ پر لوڈنگ کے لیے بھی خاص ضروریات ہوتی ہیں اور ان کی tow ریٹنگ بھی سخت ہوتی ہیں۔ پھر حکومت کے بھی چند قواعد و ضوابط ہیں جن کی پیروی ضروری ہوتی ہے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ریگولر سیفٹی انسپکشنز بھی ہوتی ہیں کہ گاڑی مذکورہ خصوصیات پر پورا اتر رہی ہے۔
گاڑیاں ڈھونے والوں کے اصول:
کار ہالرز یعنی گاڑیاں ڈھونے والوں کے معاملے میں یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان گاڑیاں ڈھونے والوں کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ لادی جانے والی گاڑیاں بھی اپنے ٹائروں کے ساتھ ٹریلر کے پیڈ پر ایک پوائنٹ لوڈ رکھتی ہیں۔ یہ لوڈ ٹریلر پیڈ کے مختلف مقامات پر ہوتے ہیں اور کیونکہ یہ گاڑیاں 100 فیصد بیڈ کے ساتھ منسلک نہیں ہوتیں، اس لیے یہ وزن ڈھونے کے عمل کے دوران اِدھر اُدھر ہو سکتا ہے۔
گاڑیوں کی محفوظ ٹرانسپورٹ اور اس میں پیچیدگیوں کی بدولت کار ہالنگ میں خصوصی طور پر بنائے گئے ٹریلرز استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں جہاں تک ممکن ہو مرکزِ ثقل (COG) کو زمین کے قریب رکھا جاتا ہے۔ البتہ اوپر تلے دو منزلیں رکھنے والے ٹریلرز میں کچھ پابندیاں ہوتی ہیں جیسا کہ زیادہ سے زیادہ اونچائی کی۔ یہ سب ٹرک ٹریلر کو چلنے کے دوران متوازن رکھ کر اور متحرک انداز میں مستحکم رکھ کر ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ٹریلرز ہائیڈرولک سسٹمز بھی رکھتے ہیں، جو لوڈنگ اور ان لوڈنگ کے لیے بیڈ کو اوپر یا نیچے کر سکتے ہیں۔ ٹریلر کو کسی بھی مسئلے سے بچانے کے لیے زمین سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے غیر محفوظ کار ہالرز:
اگر ہم سڑکوں پر نظر آنے والے ٹریلرز کو اس کام کے لیے استعمال ہونے والے اصل ٹریلرز کے ساتھ کمپیئر کریں تو ہمیں بڑے مسئلے نظر آتے ہیں۔ ان غیر محفوظ ٹریلرز کے ڈیزائن اور ساخت میں کوئی بنیادی انجینیئرنگ تک نظر نہیں آتی۔ اس حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ لوگ عام ٹریلرز کو ہی گاڑیاں ڈھونے کے لیے کچھ بنیادی تبدیلیاں کر کے استعمال میں لاتے ہیں۔ ہم ہر سال الٹ جانے والے ٹریلرز دیکھتے ہیں۔ جن کا نتیجہ بڑے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم اور حکومت ایک بڑے انسانی نقصان کے منتظر ہیں، تبھی ان ٹریلرز کے حوالے سے کسی قانون کے بارے میں سوچا جائے گا۔ سوچیے کہ یہ ٹریلر کسی شہری علاقے میں یا شاہراہ پر کسی دوسری گاڑی پر یا راہگیروں پر الٹ جائیں تو؟ وہ وقت دُور نہیں اور ایسا کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
ان غیر محفوظ ٹریلرز کی سڑکوں پر موجودگی کے علاوہ خود ان پر لدی ہوئی گاڑیاں ٹریلر بیڈز سے اچھی طرح جڑی ہوئی نہیں ہوتیں۔ تکنیکی طور پر گاڑیوں کو ٹائی ڈاؤن ٹینشن اسٹرپس کے ذریعے اور ہر گاڑی کے چاروں پہیوں سے باندھنا چاہیے۔ لیکن میں نے حال ہی میں دیکھا کہ گاڑیاں ٹریلر کے سسپنشن پارٹس سے بندھی ہوئی تھیں، مثلاً اسٹیبلائزرز/سوے بارز، کنٹرول آرمز یا دیگر حصوں سے۔ یہ بہت ہی غلط اور غیر پیشہ ورانہ حرکت ہے کیونکہ اس سے ان پارٹس کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ انہیں ٹائی ڈاؤن پوائںٹس کی حیثیت سے تیار نہیں کیا گیا۔
ہم بڑھتے اور پنپتے ہوئے آٹو سیکٹر پر خوش ہو رہے ہیں لیکن وقت آ چکا ہے کہ ان ٹریلرز کے حوالے سے مخصوص قوانین کی پاسداری بھی شروع کی جائے۔ حکومت کو کچھ نئے قوانین نافذ کرنے کا کام شروع کرنا چاہیے اور کار ٹرانسپورٹ کے لیے اصل ٹریلرز کے لیے کوئی روڈ میپ بنانا چاہیے۔ انشورنس کمپنیوں کے لیے بھی اس سلسلے میں قدم آگے بڑھانا ضروری ہے اور اگر ٹرانسپورٹرز ان قوانین پر نہ چلیں تو ان کے کوریج/کلیمز مسترد کر دیں۔ آخر یہ انشورنس کمپنیوں کو پہنچںے والا نقصان ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیوں سو رہے ہیں اور اس اہم معاملے پر دھیان کیوں نہیں دے رہے۔ وہ بھی اس عمل کا حصہ ہیں اور انہیں حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ مل کر ایک بہتر ٹرانسپورٹ میکانزم کے لیے منصوبے سامنے لانے چاہئیں۔
گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا کردار:
جہاں تک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کا تعلق ہے تو انہیں بھی نئی قانون سازی کے عمل میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ آخر کار وہ بھی انشورنس کمپنیوں کو پریمیمز دیتی ہیں اور یہ ان کے کسٹمرز ہی ہوتے ہیں جو متاثر ہوتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی ڈیلرشپس تک نہیں جانی چاہیے کیونکہ ہم نے ایسا بارہا سنا ہے کہ کس طرح حادثے کی شکار ہونے والی گاڑیاں کچھ مرمت کے بعد نئی گاڑی کے طور پر بیچی جاتی ہیں۔
ان تمام گاڑیوں کے چیسی/انجن نمبرز لازماً عوام کے سامنے لائے جانے چاہئیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان نمبروں کو متعلقہ ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے اور رجسٹریشن بکس پر “SALVAGE” لکھا ہونا چاہیے۔ دوسرے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
لوگ حادثے کی شکار اور منسوخ شدہ انشورنس کی حامل گاڑیاں کباڑ سے خرید سکتے ہیں اور انہیں ٹھیک کر کے سیفٹی انسپکشنز سے رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔ لیکن ایسی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ہمیشہ “SALVAGE” لکھا آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ MG موٹرز کے حالیہ معاملے کے بعد کمپنی چیسی نمبر عام شیئر کرے گی۔ مجھے خوف ہے کہ ان گاڑیوں کی مرمت کر کے انہیں کہیں نہ کہیں نئی گاڑی کے طور پر بیچا حائے گا۔
مجھے امید ہے کہ اس حوالے سے تمام اقدامات اٹھائے جائیں گے اور ہم صارف کی حیثیت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کار ٹرانسپورٹرز کو بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے مطابق قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ سیفٹی اسٹینڈرڈز اور قواعد سے حادثات تو مکمل طور پر ختم نہیں ہوں گے لیکن اس سے ان حادثات میں کمی ضرور آئے گی۔ قواعد نہ ہونے کی وجہ سے ہم صرف اس کے نتائج بھگتتے ہی رہیں گے اور انہیں بڑھتا دیکھتے رہیں گے۔
اپنے خیالات نیچے کمنٹس سیکشن میں شیئر کیجیے۔