پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کی جانب سے مالی سال 2015-16 کے دوران ملک میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کے اعداد و شمار پیش کردیئے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کافی حوصلہ افزا کہے جاسکتے ہیں کیوں کہ تقریباً تمام ہی اقسام کی گاڑیوں کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جولائی 2015 سے جون 2016 کے دوران 1,50,063 عام مسافر گاڑیوں (سیڈان اور ہیچ بیک) فروخت ہوئیں جبکہ گزشتہ مالی سال یہ تعداد صرف 1,27,552 رہی تھی۔ یوں مالی سال 2015-16 کے دوران سیڈان اور ہیچ بیک کی فروخت میں 17.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں 17.6 فیصد اضافہ زیادہ متاثر کن نہ ہو لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ایک بہتر مستقل کی عکاسی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی محدود گاڑیوں کی برانڈز ہونے کے باوجود سیڈان اور ہیچ بیک کی فروخت میں ہونے والے اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ٹویوٹا (Toyota)
خزاں ہو یا بہار، ٹویوٹا کے لیے کوئی موسم خاص نہیں۔ کم از کم پاکستان کے لیے تو یہ بات بالکل درست ہے۔ ٹویوٹا انڈس موٹرز نے مالی سال 2015-16 کے دوران سب سے زیادہ 57,452 ٹویوٹا کرولا (Corolla) فروخت کیں جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں11.77 فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 5,923 ہائی لکس اور 602 فورچیونر بھی فروخت ہوئیں۔ گو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہائی لکس کی فروخت میں 22.8 فیصد اضافہ ہوا تاہم فورچیونر 120 کم فروخت ہوئیں۔
ہونڈا (Honda)
عالمی سطح پر ہونڈا کو ٹویوٹا کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے تاہم پاکستان میں ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ واضح فرق موجود ہے۔ جہاں ٹویوٹا کی گاڑیاں دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہیں تو ہونڈا کی فروخت اس حد تک گرچکی ہے کہ وہ ہونڈا سِٹی اور ہونڈا سِوک کے اعداد وشمار بھی یکجا کر کے پیش کر رہا ہے۔ بہرحال،مالی سال 2015-16 پر نظر ڈالیں تو کُل 25,726 گاڑیاں فروخت ہوئیں جو گزشتہ مالی سال 2014-15 کے مقابلے میں 8.9 فیصد اضافی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مجموعی اعداد وشمار میں بھی ہونڈا سِٹی کی تعداد زیادہ ہوگی۔کیوں کہ نئی ہونڈا سِوک (Honda Civic 2016) کی آمد کے پیش نظر سِوک میں دلچسپی رکھنے والوں نے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔ اب جبکہ نئی ہوندا سِوک پیش کی جاچکی ہے تو امید ہے کہ ہونڈا کی فروخت میں ایک بار پھر قابل ذکر اضافہ دیکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں رواں سال کے ابتداء میں ہونڈا HR-V بھی پیش کی گئی تھی تاہم اس کی فروخت کے حوالے سے کوئی بھی اعداد وشمار نہیں بتائے گئے۔
سوزوکی (Suzuki)
پنجاب سبز ٹیکسی اسکیم کے بدولت پاک سوزوکی نے مالی سال 2015-16 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ سوزوکی راوی اور بولان کی فروخت بھی کافی حوصلہ افزا رہی۔ حتی کہ سوزوکی مہران اور سوزوکی کلٹس کی فروخت بھی قابل ذکر رہی ہے۔ سوزوکی ویگن آر نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔
دیگر اعداد وشمار
شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن مالی سال 2015-16 کے دوران 7 ہیونڈائی سانترو بھی فروخت ہوئیں۔ اس کے علاوہ 173 لینڈ رووَر بھی فروخت ہوئیں جو گزشتہ مالی سال 441 کی تعداد میں فروخت ہوئیں تھیں۔
گاڑیوں کے علاوہ دیگر زمرہ جات پر نظر ڈالتے ہیں۔ مالی سال 2015-16 کے دوران 6,567 ٹرک اور بسیں فروخت ہوئیں جبکہ گزشتہ مالی سال 2015-14 یہ تعداد 4,680 رہی تھی۔ سب سے زیادہ 2,458 ٹرکس ہینو کمپنی نے فروخت کیے۔ مالی سال 2015-16 کے دوران ٹریکرٹر کی فروخت صرف 34,618 رہی جبکہ یہ تعداد گزشتہ سال 46,800 تھی۔
موٹر سائیکل کا شعبہ
آخر میں موٹر سائیکلوں کی فروخت سے متعلق بات کرلتے ہیں جس میں کافی مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے۔ مجموعی طور پر مالی سال 2014-15 کے دوران 11,32,887 موٹر سائیکلیں فروخت ہوئی تھیں جبکہ پچھلے مالی سال 2015-16 کے دوران یہ تعداد 20 فیصد اضافے کے ساتھ 13,58,643 تک جا پہنچی۔ سب سے زیادہ 8,11,034 موٹر سائیکلیں ایٹلس ہونڈا نے فروخت کیں جبکہ سوزوکی موٹر سائیکلوں کی فروخت 5,247 کمی کے بعد 17,456 رہی۔ گزشتہ سال یاماہا (Yamaha) نے بھی موٹر سائیکل کے میدان رکھا اور مجموعی طور پر 16,109 موٹرسائیکلیں فروخت کیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی رجحان سوزوکی (Suzuki) سے منتقل ہو کر یاماہا کی طرف ہورہا ہے۔ اس شعبے کا ایک چھپہ رستم روڈ پرنس بھی ہے جس نے مالی سال 2015-16 کے دوران 1,67,241 موٹر سائیکلیں فروخت کیں جبکہ گزشتہ مالی سال یہ تعداد 1,34,562 رہی تھی۔
یہ تھا مالی سال 2015-16 کے دوران گاڑیوں اور موٹر سائیکل کے شعبے کا ایک جائزہ۔ گو کہ اس میں بہت سے مثبت باتیں سامنے آئیں تاہم چند ایک ایسے پہلو بھی عیاں ہوئے کہ جن پر متعلقہ اداروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ٹریکٹر کی فروخت میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ زراعت کے شعبے میں ترقی کے امکانات کم ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس سفر میں ابھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شعبے کو مزید فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور پڑوسی ممالک سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہاں بھی ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے مقامی اداروں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں۔