رواں سال منظور ہونے والی پاکستان کی نئی آٹو پالیسی نے بالآخر اپنے ثمرات دکھانا شروع کردیئے ہیں۔ اس آٹو پالیسی کو خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہوئےتیار کیا گیا ہے۔نئی آٹوپالیسی کی منظوری سے قبل کئی بین الاقوامی کار ساز اداروں کے نمائندگان نے حکومتی اہلکاروں سے ملاقات کی تھی۔ ان میں جرمن کمپنی ووکس ویگن اور اطالوی کار ساز ادارہ فیات بھی شامل تھے۔ ان اداروں کے نمائندگان نے پاکستان میں کام کرنے کے لیے اپنی دلچسپی بھی ظاہر کی تھی۔ اب جبکہ نئی آٹو پالیسی منظور کی جاچکی ہے تو ان اداروں کی جانب سے اچانک خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک چین کے اداروں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا مہران کی ہم شکل چینی گاڑی پاکستان آیا چاہتی ہے؟
حال ہی میں چینی ادارے جاک (جیانگہوئی آٹو کمپنی) موٹرز کے ڈائریکٹر شین زی کیانگ نے چھ رکنی وفد کے ہمراہ پنجاب کے صوبائی وزیر راجا اشفاق سرور سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں دونوں فریقین کے درمیان مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا جن میں گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کار ی کے امکانات بھی زیر غور آئے۔ چینی ادارے کی جانب سے پاکستان میں گاڑیوں کا کارخانہ لگانے میں بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔جس کے جواب میں صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت نے ان کے ارادوں کو سراہا اور حکومت پنجاب کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
جاک موٹرز ایک چینی سرکاری ادارہ ہے جس کی بنیاد 1964 میں رکھی گئی تھی۔ فی الوقت جاک موٹرز کا شمار چین کے دس بڑے کار ساز اداروں میں کیا جاتا ہے۔ اس ادارے نے سال 2012 میں 4,40,000 سے زائد گاڑیوں کی تیاری کا سنگ میل عبور کیا تھا۔ 2000 کی دہائی میں جاک موٹرز کوریا سے متعلق رکھنے والے بڑے نام ہیونڈائی موٹرز کے ساتھ بھی مختلف منصوبوں پر کا کرچکی ہے۔ حال ہی میں چینی کمپنی نے برقی گاڑیاں تیار کرنے کا عزم کیا ہے اور اس ضمن میں ایک سرمایہ کاری کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برقی گاڑیاں تیار کرنے والے 5 باصلاحیت چینی ادارے
جاک موٹرز کی ساکھ دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اظہار دلچسپی محض باتیں نہیں ہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے اس پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ معاملات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ یاد رہے کہ جاک موٹرز صرف عام گاڑیاں ہی نہیں بناتی بلکہ بڑی بسیں بنانے میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پاکستان میں صرف بڑی گاڑیاں تیار کرنے کا کارخانہ ہی لگائیں۔ بہرحال، اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت اور ملک میں نئی سرمایہ کاری کی آمد سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس کے شہریوں کو بھی قابل ذکر فوائد حاصل ہوں گے۔