پاکستان میں جاپان کے نئے سفیر تکاشی کورائی نے ایک وفد کے ہمراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی۔ پیر کے روز ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بہتری کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔ گفتگو کے اہم ترین موضوعات میں پنج سالہ آٹو پالیسی برائے 2016-2021 بھی شامل تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ نئی آٹو پالیسی کے ذریعے ہم بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں یکساں کاروباری مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
گاڑیوں کے شعبے میں جاپانی اداروں کی سرمایہ کاری اور نئی آٹو پالیسی پر جاپانی اداروں کے تحفظات پر بھی گفتگو ہوئی۔ وفاقی وزیر نے جاپانی وفد کو یقین دہانی کروائی کہ نئی آٹو پالیسی کی تیاری میں مکمل غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام فریقین کو یکساں مواقع دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال یاماہا موٹرز کی پاکستان آمد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پاکستانی مارکیٹ پر بھروسے کی قابل ذکر مثال ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یاماہا کو پاکستان میں دوبارہ کاروبار شروع کرنے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد اسحاق ڈار ہی وہ شخص ہیں کہ جن کی کوششوں سے بالآخر یاماہا کی پاکستان واپسی ممکن ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان میں مہران کی جگہ نئی آلٹو متعارف کروائی جارہی ہے؟
اب سے ایک ہفتہ قبل وفاقی وزیر احسان اقبال کو پاک سوزوکی کے عہدیداران کے ہمراہ ایک نئی گاڑی کی جانچ کرتے ہوئے دیکھا جاچکا ہے۔ یہ ممکنہ گاڑی پاکستان میں سوزوکی مہران (Suzuki Mehran) کی جگہ متعارف کروائی جائے گی۔
یاد رہے کہ حکومت جاپان کی جانب سے آٹو پالیسی کی منظوری سے قبل بھی زبردست لابنگ کی گئی تھی جس کا مقصد یہاں جاپانی اداروں کی اجارہ داری کو قائم رکھنا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جاپانی ادارے نئی آٹو پالیسی سے شدید ناخوش ہیں اور وہ ہر ممکن طریقے سے حکومت پاکستان کو منظور شدہ آٹو پالیسی میں من پسند ترامیم کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔