ہیونڈائی سینٹرو 2004ء – بجٹ کار کا جائزہ
پاکستانی عوام کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے وہ ایک مخصوص بجٹ کے اندر رہتے ہوئے کسی گاڑی کا انتخاب کرتے ہیں۔ پاک ویلز نے محدود بجٹ کے اندر استعمال شدہ گاڑی کی تلاش کرنے والے افراد کو مدد دینے کے لیے بجٹ کار کے جائزوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔
اس تحریر میں ہم 2004ء سیکنڈ جنریشن ہیونڈائی سینٹرو Exec ویریئنٹ کی بات کریں گے۔ شروع کرنے سے پہلے ہیونڈائی سینٹرو کے بارے میں کچھ بات۔ سینٹرو ایک فرنٹ ویل ڈرائیو مِنی ہیچ بیک ہے جسے ہیونڈائی نے 2000ء میں پاکستان میں لانچ کیا تھا۔ سینٹرو نے ملک میں فروخت کے دوران دو مواقع دیکھے۔ پہلی جنریشن کی سینٹرو 2000ء میں متعارف کروائی گئی اور تین سال بعد دوسری جنریشن کی سینٹرو کے حق میں دستبردار کردی گئی کہ جو 2003ء میں لانچ ہوئی۔
ابتدائی طور پر عوام نے سمجھا کہ یہ کوریائی ساختہ ہے اس لیے اس کے اسپیئر پارٹس ملنا آسان نہ ہوگا؛ لیکن معاملہ ایسا نہیں تھا اور اس یہ سینٹرو 2004-05ء میں عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ پہلی جنریشن کی سینٹرو صرف ایک ویرینٹ (پلس) میں دستیاب تھی، جبکہ دوسری جنریشن کی سینٹرو 6 ویریئنٹس میں آئی:
کلب
کلب GV
Exec
Exec GV
پرائم
پرائم GV
تین اہم ویریئنٹس (کلب، Exec اور پرائم) کے درمیان متعدد چھوٹے بڑے فرق تھے؛ چند کروم بٹس سے لے کر دیگر تک۔ لیکن سب سے بڑا فرق کمپنی کی جانب سے لگائی گئی CNG کا تھا۔ GV کا مطلب ہے گرین وہیکل اور یہ لوواٹو CNG کِٹ کے ساتھ آئی تھی۔
2009ء تک یہ گاڑی پاکستان کی سڑکوں پر بہت نظر آتی تھی لیکن اس کے بعد چند وجوہات کی بناء پر مقامی ڈیلر دیوان موٹرز دیوالیہ ہو گیا، اور ہیونڈائی گروپ پاکستان سے چلا گیا۔ کار کے بارے میں ایک دلچسپ بات؛ 2014ء میں تصفیے کے بعد بینک کی جانب سے سینٹرو کے تقریباً 300 یونٹس نکالے گئے اور دیوان نے یہ سب مارکیٹ میں پیش کردیے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہیونڈائی مارکیٹ چھوڑ چکا تھا تمام گاڑیوں کچھ ہی وقت میں صارفین کی جانب سے خرید لی گئیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ان سینٹرو گاڑیوں کو شہر کے اندر گشت کے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سینٹرو مقامی مارکیٹ میں کتنی مقبول تھی۔
مزید برآں، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہیونڈائی ہونڈا، سوزوکی اور ٹویوٹا کے بعد پاکستان میں آنے والا چوتھا آٹو میکر تھا۔ اس کمپنی کی پروڈکٹس نے مقامی آٹوموبائل انڈسٹری پر بڑے اثرات مرتب کیے؛ سینٹرو اور شہہ زور نے مارکیٹ پر ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ایکسٹیریئر:
پہلی جنریشن کی سینٹرو کچھ اونچی تھی اور کہہ سکتے ہیں کہ کچھ عجیب سا ایکسٹیریئر رکھتی تھی، دوسری جنریشن کی سینٹرو کہیں زیادہ روایتی بلکہ اپنے زمانے کے حساب سے جدید شکل کی تھی۔ سینٹرو چلانے والے افراد جانتے تھے کہ دوسری جنریشن کی سینٹرو ایکسٹیریئر کے لحاظ سے پہلی جنریشن سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ یہ گاڑی کرسٹل ہیڈلائٹس، فوگ لیمپس اور ایک گرِل سے لیس ہے کہ جو بلاشبہ اسے مناسب نظر آنے والی گاڑی بناتی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی گاڑی تھی جو ریئر وائپر کے ساتھ آئی تھی۔ ریئر وائپر اس زمانے میں امپورٹڈ گاڑیوں میں بھی عام نہ تھی اور اب بھی مقامی ہیچ بیکس میں موجود نہیں ہے۔
گاڑی کی پیمائش کی بات کریں تو دوسری جنریشن کی سینٹرو 3495 ملی میٹر لمبی، 1495 ملی میٹر چوڑی اور 1615 ملی میٹر اونچی ہے۔ یہ گاڑی 2380 ملی میٹر کا ویل بیس رکھتی ہے۔ یوں سینٹرو مقامی ویگن آر سے 0.7 انچ چوڑی ہے لیکن لمبائی میں 4 انچ چھوٹی ہے۔
پچھلے حصے پر یہ کار ایک کروم گارنِش، ایک اسپائلر اور دو رنگوں والا بمپر رکھتی ہے۔ اگر ہم گاڑی کے مجموعی ایکسٹیریئر ڈیزائن کا تصور کریں تو یہ 2003ء میں اپنے وقت سے کہیں آگے تھا۔
انٹیریئر:
گاڑی میں داخل ہوتے ہی آپ کو سب سے پہلے جو چیز محسوس ہوتی ہے وہ کہ یہ اس کا انٹیریئر بہت کشارہ ہے؛ ہیڈ روم اور لیگ روم دونوں بہت اچھے ہیں۔ دو بڑے افراد اور تین چھوٹے بچے اس گاڑی میں باآسانی اس گاڑی میں بیٹھ سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ ہماری بہترین معلومات کے مطابق یہ پاکستان میں پہلی گاڑی تھی جو سفید رنگ کے انفارمیشن کلسٹر کی حامل تھی۔ اس وقت عوام اپنی اسپورٹس کار یا موڈیفائیڈ گاڑیوں میں سفید رنگ کے انفارمیشن میٹرز استعمال کرتے تھے۔ اس لیے یہ زبردست پیشکش تھی جو کمپنی نے 15 سال پہلے متعارف کروائی۔ پھر کوئی بھی گاڑی کے اندر سے ہی سائیڈ مررز مینوئل طور پر ٹھیک کر سکتا تھا، جو اس گاڑی کا ایک اور چھوٹا سا فیچر تھا۔
کمپنی کا فٹ شدہ آڈیو یونٹ صرف کیسٹ چلا سکتا ہے، USB یا کوئی اور پورٹ اس میں دستیاب نہیں تھی۔ اس وقت تمام چھوٹی کاریں صرف کیسٹ پلیئر/ریڈیو کے ساتھ آتی تھی۔ البتہ جس گاڑی کا ہم نے جائزہ لیا اس میں CD پلیئر تھا جو بلاشبہ پہلے سے لگے کیسٹ پلیئر کی جگہ لگایا گیا تھا۔ ڈیش بورڈ گولائی اور ہموار ڈیزائن لائنیں رکھتا تھا جو اسے روایتی بناتا ہے۔
گاڑی کا اسٹیئرنگ چھوٹا نہیں تھا، جیسا کہ مہران اور دوسری بجٹ کاروں میں آتا ہے۔ یہ گاڑی ڈی فوگر کے ساتھ بھی آئی۔ AC وینٹس بھی دائرے کی شکل کے ہیں جبکہ مینوئل AC کنٹرول سوئچ ڈیش بورڈ کے درمیان میں ہیں۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ یہ ایک بجٹ کار ہے اور اپنے وقت میں جب یہ لانچ کی گئی تھی مقامی طور پر بنائی جانے والی لگژری کاریں بھی آٹومیٹک کلائمٹ کنٹرول یونٹ نہیں رکھتی تھی۔ سینٹرو میں آپ کو کپ ہولڈرز بھی ملیں گے۔
اس کار کے بارے میں ایک چیز یہ ہے کہ اس میں گلَو باکس نہیں تھا، حالانکہ اسٹوریج کمپارٹمنٹ کی کافی تعداد ہے۔ کمپنی نے آگے والی پسنجر سیٹ کے نیچے بھی ایک اسٹوریج کمپارٹمنٹ بنا رکھا ہے؛ یہ ہیونڈائی کی جانب سے زبردست جدّت تھی۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جس گاڑی کا جائزہ لیا گیا وہ ایگزیکٹو ماڈل تھا جو فرنٹ میں پاور ونڈوز اور پیچھے مینوئل کے ساتھ آیا تھا۔
کارکردگی، آرام اور ہینڈلنگ:
سینٹرول ایک اِن-لائن 4-سلنڈر واٹر-کولڈ انجن کے ساتھ آئی۔ انجن اپنے زمانے کے حساب سے کافی جدید تھا۔ اس میں 3-والوز فی سلنڈر تھے جو اسے 12v انجن بناتے ہیں۔ ہیونڈائی سینٹرو کا 999cc انجن Epsilon کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ انجن، نیا ہونے کی صورت میں، 55 BHP اور 82 Nm ٹارک پیدا کرتا تھا۔ اس کی ٹرانسمیشن 5-اسپیڈ مینوئل تھی۔
1.0 لیٹر مع 5-اسپیڈ مینوئل گیئربکس ہونے کی وجہ سے اس گاڑی کا آرام اور معیار کافی اچھا ہے۔ مزید یہ کہ سسپنشن کافی بہتر ہیں خاص طور پر اگر ہم اس کا مقابلہ اس زمانے میں پیش کی گئی دوسری ہیچ بیکس سے کریں۔ جہاں تک گراؤنڈ کلیئرنس کا تعلق ہے، پاکستانی سڑکوں کے لحاظ سے یہ اچھی ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پہلی جنریشن کی کار EFI انجن کے ساتھ پیش کی گئی تھی جو اس زانے میں کافی زبردست چیز تھی کیونکہ اس زمرے کی کسی گاڑی میں EFI انجن نہیں تھا۔ سوزوکی آلٹو 1000cc اس کی مقابل گاڑی تھی لیکن اس میں اب بھی EFI انجن نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس گاڑی کی فیول اکانمی اچھی تھی اور یہ کبھی بھی کم طاقت کی گاڑی نہیں لگتی تھی۔
آگے بڑھیں تو اس گاڑی کا مائلیج کسی بھی ایسی گاڑی کے حساب سے اچھا ہے جسے 2003-04ء میں استعمال کی گئی تھی۔ یہ شہر کے اندر 10 سے 11 کلومیٹر فی لیٹر اور ہائی وے پر 12 سے 14 کلومیٹر فی لیٹر چلتی ہے۔ یہ آج کل کے معیارات کے مطابق تو نہیں لیکن پھر بھی ایک مناسب ایوریج ہے۔ کئی مِنی ہیچ بیکس کی طرح سینٹرو 35 لیٹر فیول ٹینک کے ساتھ آتی ہے۔
گاڑی کا AC اب بھی طاقتور ہے حالانکہ اس کو کافی سال گزر گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گرمیوں کے دنوں میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
مزید یہ کہ اسپیئر پارٹس کی دستیابی بھی کوئی مسئلہ نہیں؛ مقامی آٹو مارکیٹ سے کوئی بھی باآسانی انہیں حاصل کر سکتا ہے۔ گاڑی میں واحد مسئلہ یہ ہے کہ گاڑی کا ECU کام کا نہیں رہا، اسے حاصل کرنا مشکل ہے۔ البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ ہیونڈائی نشاط موٹرز کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر مارکیٹ میں آ رہا ہے – جس کا مطلب ہے کہ آپ کو مستقبل میں اسپیئر پارٹس کی دستیابی کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ ہیونڈائی نشاط پرانی ہیونڈائی گاڑیوں کے لیے بھی بندوبست کرے گا۔
نتیجہ:
مختصراً یہ کہ 15 سال پرانی اس ہیچ بیک کے زبردست فیچرز ہیں۔ اس گاڑی کی گنجائش بھی اچھی ہے اور یہ اچھا مائلیج بھی دیتی ہے۔ یہ ایک مکمل فیملی کار ہے۔ اگر آپ چھوٹے بجٹ میں کوئی استعمال شدہ ہیچ بیک خریدنا چاہ رہے ہیں تو ہماری رائے میں یہ گاڑی آپ کے لیے ہے۔ یہ گاڑی اب بند کردی گئی ہے؛ پھر بھی استعمال شدہ ہیونڈائی سینٹرو باآسانی 3 سے 6 لاکھ روپے میں مل جاتی ہے، جس کی قیمت کا انحصار اس کی کنڈیشن پر ہے۔
پاک ویلز کا ہیونڈائی سینٹرو وڈیو جائزہ نیچے دیکھیں: